پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے قائم افغان مہاجرین عارضی ماڈل کا خیبر پختونخوا میں 42 کیمپس مستقل طور پر بند کر دیے ہیں۔ مذکورہ فیصلہ قومی سلامتی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق مہاجرین کے منظم انتظام کی طرف ایک واضح پالیسی شِفٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
صوبائی حکام کے مطابق یہ عمل دو واضح مراحل میں مکمل کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں 5 کیمپس بند کیے گئے جبکہ دوسرے وسیع مرحلے میں 37 کیمپس کی بندش کی گئی۔ اس آپریشن کے نتیجے میں 300,000 سے زائد افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل ریاستی نگرانی میں شروع ہو گیا ہے۔
ایک اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیصلہ کسی یکطرفہ یا جذباتی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط مہاجر انتظامیہ کے جامع جائزے کے بعد لیا گیا ہے۔ 1979 میں قائم ہونے والے یہ کیمپس اپنی اصل ہنگامی نوعیت کھو چکے تھے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ اقدام کسی انتقامی کارروائی نہیں کا حصہ نہیں بلکہ امن واستحکام کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ نیز ہمارا بنیادی ہدف غیر قانونی افراد کی نشاندہی، رجسٹریشن کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنا، اور قانونی رہائش کے فریم ورک کو مضبوط بنانا ہے۔
سلامتی کے پیشِ نطر اقدامات
سرکاری حکام کے مطابق نصف صدی قبل قائم کیے گئے مہاجر کیمپس اب نہ صرف شہری منصوبہ بندی بلکہ سیکیورٹی انتظامیہ کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکے تھے۔ یہ کیمپس اصل میں ہنگامی پناہ گاہیں تھیں جو مستقل آبادیوں میں بدل گئی تھیں جہاں نگرانی، خدمات کی فراہمی اور انتظام میں مسائل پیدا ہو رہے تھے۔
بین الاقوامی اصول
حکومتِ پاکستان کا مذکورہ فیصلے کو بین الاقوامی مہاجر قوانین اور ریاستی امن کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی ملک کی مہاجر میزبانی لامحدود نہیں ہو سکتی بالخصوص جب خطے میں سیکیورٹی ڈائنامکس بدل رہی ہوں۔ پاکستان نے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ لہذا اب وقت آ گیا ہے کہ ایک منظم، قانونی اور مستقل فریم ورک کی طرف منتقل ہوا جائے
بندش کے تمام مراحل میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر تعینات رہے تاکہ کسی قسم کی بدامنی یا استحصال کی صورت حال پیدا نہ ہو۔ عہدیداروں کے مطابق غیر رجسٹرڈ افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی اسی تنظیمی عمل کا حصہ تھی۔
صوبائی حکومت نے ان تمام مراحل میں وفاقی حکومت کو آپریشن کے ہر مرحلے سے بروقت آگاہ رکھا گیا تھا اور اس سلسلے میں مکمل ہم آہنگی موجود تھی۔ اس موقع پر ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیصلے کو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے نئے تصور کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ ماہرِ دفاع ڈاکٹر عامر رحمان کا کہنا ہے کہ “یہ فیصلہ محض مہاجر کیمپس کی بندش نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب اپنی سلامتی اور معیشت کے حوالے سے ہر معاملے میں ایک نئے، منظم اور قانونی فریم ورک کی طرف بڑھ رہا ہے۔”
مستقبل کا روڈ میپ
حکام کے مطابق اب آئندہ مرحلے میں باقاعدہ رجسٹرڈ مہاجرین کے لیے قانونی رہائش کے انتظامات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جبکہ غیر دستاویزی افراد کی وطن واپسی کا عمل انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق جاری رہے گا۔
54 سالہ عرصے پر محیط اس باب کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنی مہاجر پالیسی میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے، جو نہ صرف ملکی سلامتی کے تقاضوں بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش بھی ہے۔