افغانستان میں پاکستانی ادویات کے خلاف سامنے آنے والے حالیہ الزامات نے نہ صرف دوطرفہ تجارتی تعلقات بلکہ صحتِ عامہ اور دواسازی عمل پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ افغان طالبان سے منسلک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زیرِ گردش ویڈیو میں وزارتِ دفاع کے چیف آف جنرل اسٹاف کے شعبۂ صحت کے کمانڈر ڈاکٹر طاہر احرار نے میڈیا کے سامنے 22 اقسام کی پاکستانی ادویات پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی پیکنگ جعلی اور ادویات غیر معیاری ہیں۔
افغان وزیرِ دفاع کی جانب سے یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب طالبان حکام نے نومبر میں پاکستانی ادویات کی درآمد کو مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ بیک وقت بھارتی اور ایرانی سپلائرز سے ادویات کی درآمد میں توسیع کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ تاہم ان الزامات کی تاحال کسی آزاد افغان میڈیا ادارے، بین الاقوامی ریگولیٹری اتھارٹی یا کسی تھرڈ پارٹی لیبارٹری کی جانب سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
The Commander of Health Affairs at the Ministry of Defense's Chief of General Staff, Dr. Tahir Ahrar, shows to the media 22 types of Pakistani fake medicines that were found to be counterfeit.
— Qari Saeed Khosty (@SaeedKhosty) December 16, 2025
ڈاکٹر طاہر احرار نے میڈیا کو وہ 22 قسم پاکستانی ادویات دکھائیں جن کی پیکنگ جعلی تھی۔۔ pic.twitter.com/4qG6XTh1ev
طبی ماہرین کے مطابق ادویات کے معیار سے متعلق کسی بھی سنگین الزام کے لیے آزاد لیبارٹری ٹیسٹنگ، بیچ نمبرز، رجسٹریشن تفصیلات اور باضابطہ ریگولیٹری فائلنگ ضروری ہوتی ہے۔ غیر متعلقہ شعبے سے منسلک افراد کی جانب سے ادویات کو غیر معیاری قرار دین سائنسی یا قانونی طور پر معتبر نہیں سمجھا جاتا، بالخصوص جب دعوی کرنے والا فرد لائسنس یافتہ فارماسسٹ یا کیمسٹ بھی نہ ہو۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان مارکیٹ میں زمینی حقائق اس بیانیے سے مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی ادویات کی طلب اب بھی برقرار ہے بلکہ بعض ادویات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک پاکستانی معدے کی دوا کی قیمت مبینہ طور پر 600 افغانی فی بوتل تک پہنچ چکی ہے، جو صارفین کے اعتماد کے خاتمے کے بجائے رسد میں کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ الزامات کا وقت اور ان کا پسِ منظر اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ صحتِ عامہ کے نام پر مارکیٹ کی تشکیلِ نو کی جا رہی ہے، جس کے ذریعے شفاف شواہد کے بغیر بھارتی اور ایرانی سپلائرز کے لیے جگہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر واقعی کسی دوا میں خرابی یا غیر معیاری اشیاء موجود ہوں تو اس کا حل میڈیا بیانات کے بجائے مشترکہ معائنہ، باقاعدہ شکایات اور ری کال کے طریقۂ کار کے تحت نکالا جانا چاہیے۔
پاکستانی حکام کا مؤقف
اس موقع پر پاکستانی حکام اس مؤقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی تیار کردہ ادویات عالمی جی ایم پی معیارات اور سخت برآمدی ضوابط کے تحت تیار کی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ممکنہ مسئلے کی صورت میں ریگولیٹر ٹو ریگولیٹر رابطہ، آزاد تصدیق اور عوامی لیب رپورٹس ہی قابلِ اعتبار راستہ ہیں۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کابل کو واقعی مریضوں کی سلامتی درپیش ہے تو شفاف اور سائنسی طریقۂ کار اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر وسیع اور غیر مصدقہ الزامات نہ صرف طبی اعتبار سے کمزور بلکہ سیاسی نوعیت اور الزام تراشی کے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں جو خطے میں اعتماد اور تعاون کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔