شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے ہیڈکوارٹر پر 19 دسمبر کو ہونے والے خونریز خودکش حملے کے ایک مجرم کی شناخت افغان شہری کے طور پر ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق حملہ آور ذکی اللہ المعروف احمد وزیرستانی افغان دارالحکومت کابل کے مضافاتی علاقے موسٰیٰ کا رہائشی تھا۔
مذکورہ حملہ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشتگردوں نے کیا تھا، جس میں چار حملہ آور ملوث تھے۔ حملے کے بعد کابل میں حملہ آور کے گھر پر فاتحہ خوانی کی تقریب بھی منعقد ہوئی، جس نے افغان سرزمین سے روابط کو مزید آشکار کیا تھا۔
افغانستان سے ابُھرتا ہوا خطرہ
افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کا خطے کی سلامتی پر گہرا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ شمالی وزیرستان کا یہ واقعہ اس بات کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ دہشت گردی محض داخلی عناصر تک محدود نہیں، بلکہ اس کی جڑیں سرحد کے پار تک پھیلی ہوئی ہیں۔ افغان سرزمین کا بار بار اس مقصد کے لیے استعمال ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں سرحدی ناکہ بندیوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں مصروف ہیں۔
بیرونی سہولت کاری کا ثبوت
حملے میں ایک افغان شہری کی براہ راست ملوثیت اس بات کی ناقابل تردید دلیل ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں نہ صرف پناہ میسر ہے بلکہ وہاں سے انہیں تربیت اور منصوبہ سازی میں عملی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے ان قدیمی تحفظات کی تصدیق کرتی ہے جن میں افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔
انتہاپسندی کی پذیرائی
حملہ آور کے لیے کابل میں منعقد ہونے والی عوامی تعزیتی تقریب ایک انتہائی فکر انگیز اقدام ہے جو اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان میں ایسا نظریاتی اور سماجی ماحول موجود ہے جہاں دہشت گرد کارروائیوں کو ہمدردی اور جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ ایسے رویے نہ صرف دہشت گردوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں بلکہ نوجوان نسل کو انتہاپسندی کی طرف راغب کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔
دہشت گرد نیٹ ورکس
متعدد بین الاقوامی رپورٹس اور سیکیورٹی تجزیوں کے مطابق افغانستان اس وقت داعش خراسان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور گل بہادر جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ تنظیمیں نہ صرف افغانستان کے اندر فعال ہیں، بلکہ خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اپنی کارروائیوں کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
علاقائی امن کے لیے خطرہ
شمالی وزیرستان جیسے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم علاقائی اور بین الاقوامی خطرہ ہے۔ ایسے حملے ریاستی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
افغان حکام کی ناکامی
افغانستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اور فیصلہ کن کارروائیوں کا فقدان انتہائی تشویشناک ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نرم رویہ اور عدم مداخلت کی پالیسی نے انہیں دوبارہ منظم ہونے، نئے اراکین بھرتی کرنے اور اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کا وسیع موقع فراہم کیا ہے۔
عالمی سلامتی کے لیے چیلنج
داعش خراسان، القاعدہ اور دیگر تنظیمیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کرتے ہوئے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یہ صورت حال افغانستان کو بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرے کی حیثیت دیتی ہے۔
پاکستان کا موقف
یہ تمام شواہد پاکستان کے اس دیرینہ موقف کی تصدیق کرتے ہیں کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس علاقائی امن اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ بین الاقوامی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور مربوط اقدامات کرے۔
افغان سرزمین کا استعمال
طالبان اور دیگر انتہاپسند عناصر افغان سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ، بھرتی مرکز اور دہشت گرد حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس عمل نے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس کا مرکز بنا دیا ہے، جس کے اثرات پورے خطے اور عالمی سلامتی پر مرتب ہو رہے ہیں۔
دیکھیں: ہرات سرحد پر 100 افراد کی ایران میں غیر قانونی داخلے کی کوشش، 30 افغان مہاجرین ہلاک