پاکستانی تعلیمی ادارے عالمی سطح پر اپنی علمی اور تحقیقی مہارت کا لوہا منوا رہے ہیں، جن میں نمایاں پروفیسر نوشیر وان شعیب ہیں جنہیں عالمی انجینئرنگ ایوارڈ ملا جبکہ جویرا شکیل کو ۲۰۲۵ کے لیے بین الاقوامی تحقیقی اسکالرشپ حاصل ہوئی

December 22, 2025

افغانستان میں اس وقت بیس سے زائد علاقائی اور عالمی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی کی تصدیق اقوام متحدہ کر چکی ہے، جن میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، ترکستان اسلامی پارٹی اور اسلامی موومنٹ آف ازبکستان شامل ہیں۔

December 22, 2025

شمالی وزیرستان میں ہونے والا خودکش حملہ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشتگردوں نے کیا، جس میں چار حملہ آور شامل تھے

December 22, 2025

افغانستان کے باشندے جو غیر قانونی طور پر ایران جانے کے لیے پاکستان سے گزر رہے تھے، حادثے میں جاں بحق ہوئے

December 22, 2025

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران یہاں پیداوار میں سالانہ اوسطاً 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس فیلڈ کی اضافی تیل کی پیداوار ملک بھر میں ہونے والے کل اضافے کا تقریباً 40 فیصد ہے

December 22, 2025

پاکستان اور عراق نے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا

December 22, 2025

شمالی وزیرستان خودکش حملے میں بمبار افغان شہری نکلا

شمالی وزیرستان میں ہونے والا خودکش حملہ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشتگردوں نے کیا، جس میں چار حملہ آور شامل تھے
شمالی وزیرستان میں ہونے والا خودکش حملہ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشتگردوں نے کیا، جس میں چار حملہ آور شامل تھے

کابل میں حملہ آور کے گھر پر فاتحہ خوانی کی تقریب بھی منعقد ہوئی، جس نے افغان سرزمین سے روابط کو مزید آشکار کیا تھا

December 22, 2025

شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے ہیڈکوارٹر پر 19 دسمبر کو ہونے والے خونریز خودکش حملے کے ایک مجرم کی شناخت افغان شہری کے طور پر ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق حملہ آور ذکی اللہ المعروف احمد وزیرستانی افغان دارالحکومت کابل کے مضافاتی علاقے موسٰیٰ کا رہائشی تھا۔

مذکورہ حملہ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشتگردوں نے کیا تھا، جس میں چار حملہ آور ملوث تھے۔ حملے کے بعد کابل میں حملہ آور کے گھر پر فاتحہ خوانی کی تقریب بھی منعقد ہوئی، جس نے افغان سرزمین سے روابط کو مزید آشکار کیا تھا۔

افغانستان سے ابُھرتا ہوا خطرہ

افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کا خطے کی سلامتی پر گہرا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ شمالی وزیرستان کا یہ واقعہ اس بات کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ دہشت گردی محض داخلی عناصر تک محدود نہیں، بلکہ اس کی جڑیں سرحد کے پار تک پھیلی ہوئی ہیں۔ افغان سرزمین کا بار بار اس مقصد کے لیے استعمال ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں سرحدی ناکہ بندیوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں مصروف ہیں۔

بیرونی سہولت کاری کا ثبوت

حملے میں ایک افغان شہری کی براہ راست ملوثیت اس بات کی ناقابل تردید دلیل ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں نہ صرف پناہ میسر ہے بلکہ وہاں سے انہیں تربیت اور منصوبہ سازی میں عملی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے ان قدیمی تحفظات کی تصدیق کرتی ہے جن میں افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔

انتہاپسندی کی پذیرائی

حملہ آور کے لیے کابل میں منعقد ہونے والی عوامی تعزیتی تقریب ایک انتہائی فکر انگیز اقدام ہے جو اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان میں ایسا نظریاتی اور سماجی ماحول موجود ہے جہاں دہشت گرد کارروائیوں کو ہمدردی اور جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ ایسے رویے نہ صرف دہشت گردوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں بلکہ نوجوان نسل کو انتہاپسندی کی طرف راغب کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔

دہشت گرد نیٹ ورکس

متعدد بین الاقوامی رپورٹس اور سیکیورٹی تجزیوں کے مطابق افغانستان اس وقت داعش خراسان، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور گل بہادر جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ تنظیمیں نہ صرف افغانستان کے اندر فعال ہیں، بلکہ خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اپنی کارروائیوں کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

علاقائی امن کے لیے خطرہ

شمالی وزیرستان جیسے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم علاقائی اور بین الاقوامی خطرہ ہے۔ ایسے حملے ریاستی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

افغان حکام کی ناکامی

افغانستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اور فیصلہ کن کارروائیوں کا فقدان انتہائی تشویشناک ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نرم رویہ اور عدم مداخلت کی پالیسی نے انہیں دوبارہ منظم ہونے، نئے اراکین بھرتی کرنے اور اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کا وسیع موقع فراہم کیا ہے۔

عالمی سلامتی کے لیے چیلنج

داعش خراسان، القاعدہ اور دیگر تنظیمیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کرتے ہوئے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یہ صورت حال افغانستان کو بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرے کی حیثیت دیتی ہے۔

پاکستان کا موقف

یہ تمام شواہد پاکستان کے اس دیرینہ موقف کی تصدیق کرتے ہیں کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس علاقائی امن اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ بین الاقوامی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور مربوط اقدامات کرے۔

افغان سرزمین کا استعمال

طالبان اور دیگر انتہاپسند عناصر افغان سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ، بھرتی مرکز اور دہشت گرد حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس عمل نے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس کا مرکز بنا دیا ہے، جس کے اثرات پورے خطے اور عالمی سلامتی پر مرتب ہو رہے ہیں۔

دیکھیں: ہرات سرحد پر 100 افراد کی ایران میں غیر قانونی داخلے کی کوشش، 30 افغان مہاجرین ہلاک

متعلقہ مضامین

پاکستانی تعلیمی ادارے عالمی سطح پر اپنی علمی اور تحقیقی مہارت کا لوہا منوا رہے ہیں، جن میں نمایاں پروفیسر نوشیر وان شعیب ہیں جنہیں عالمی انجینئرنگ ایوارڈ ملا جبکہ جویرا شکیل کو ۲۰۲۵ کے لیے بین الاقوامی تحقیقی اسکالرشپ حاصل ہوئی

December 22, 2025

افغانستان میں اس وقت بیس سے زائد علاقائی اور عالمی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی کی تصدیق اقوام متحدہ کر چکی ہے، جن میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، ترکستان اسلامی پارٹی اور اسلامی موومنٹ آف ازبکستان شامل ہیں۔

December 22, 2025

افغانستان کے باشندے جو غیر قانونی طور پر ایران جانے کے لیے پاکستان سے گزر رہے تھے، حادثے میں جاں بحق ہوئے

December 22, 2025

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران یہاں پیداوار میں سالانہ اوسطاً 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس فیلڈ کی اضافی تیل کی پیداوار ملک بھر میں ہونے والے کل اضافے کا تقریباً 40 فیصد ہے

December 22, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *