افغانستان کے صوبہ ہرات میں طالبان حکومت کے حالیہ حکم نامے کے خلاف ایک غیرمعمولی احتجاج ہوا، جس میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی نے برقع (چادر) پہننے کے لازمی حکم کو مسترد کرتے ہوئے علامتی طور پر برقعوں کو آگ لگا دی۔
افغانستان کے صوبہ ہرات میں خواتین کے حقوق کی کارکنوں نے حکومت کے حالیہ فرمان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے برقعوں کو نذرِ آتش کردیا۔ طالبان نے خواتین کے لیے برقع (چادر) پہننا لازمی قرار دیا تھا، جسے مظاہرین نے خواتین کی عزت، شناخت اور بنیادی انسانی حقوق پر حملہ قرار دیا۔
— HTN Urdu (@htnurdu) November 10, 2025
سول سوسائٹی… pic.twitter.com/awBMUSHHCN
مظاہرین نے اس اقدام کو خواتین کی عزت، شناخت اور بنیادی انسانی حقوق پر حملہ قرار دیا۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود یہ احتجاج افغان خواتین کے بڑھتے ہوئے غصے اور طالبان کی پابندیوں سے بیزاری کی ایک طاقتور علامت بن گیا۔
“میں عورت ہوں، سایہ نہیں” افغان خواتین کی للکار
احتجاج کے دوران خواتین نے ایسے نعرے بلند کیے جو افغان سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گئے۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا:
“میں عورت ہوں، سایہ نہیں — میری آواز مت دباؤ”،
“سانس لینا ہمارا حق ہے”،
“نیلا رنگ جبر کا نہیں، آزادی کا ہے”،
“برقع ایک پنجرہ ہے — مگر پرندہ پھر بھی گاتا ہے”،
“آسمان اور میں دونوں نیلے ہیں — مگر آسمان آزاد ہے”۔
ان نعروں کے ذریعے مظاہرین نے طالبان کے نئے حکم کو خواتین کی آزادی، شناخت اور معاشرتی شرکت پر کاری ضرب قرار دیا۔
سول سوسائٹی کا ردعمل: “غیر اسلامی اور غیر انسانی فیصلہ”
افغان سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں طالبان کے برقع لازمی حکم کو “غیر اسلامی، غیر انسانی اور عورت دشمن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ”خواتین کو برقع پہننے پر مجبور کرنا نہ اسلامی اقدار کے مطابق ہے، نہ انسانی وقار کے۔ افغان خواتین کو معاشرے میں آزادانہ شرکت، عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے اور خوف کے بغیر اپنی شناخت کے اظہار کا حق حاصل ہے۔” تنظیموں نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کا یہ فیصلہ مذہب نہیں بلکہ ظلم اور جبر کا آلہ ہے۔
عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل
مظاہرین نے اقوامِ متحدہ، عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی توڑیں اور فوری اقدامات کریں۔
ان کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا:
“افغان خواتین کی آواز خاموش نہیں کی جا سکتی — ان کے دلوں میں امید اور روشنی ہمیشہ زندہ رہے گی۔”
پس منظر: افغان خواتین پر بڑھتی پابندیاں
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ ان میں لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی، ملازمت کی ممانعت، محرم کے بغیر سفر پر پابندی، اور سخت لباس کے ضوابط شامل ہیں۔
ہرات میں یہ احتجاج ان پابندیوں کے خلاف افغان خواتین کی مزاحمت کی تازہ مثال ہے۔ خطرات کے باوجود خواتین نے ایک بار پھر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ افغان عورت اب بھی اپنی شناخت، آزادی اور وقار کے لیے کھڑی ہے۔