امریکی میگزین “دی نیشنل انٹرسٹ” نے اپنی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں طالبان کے زیرِ انتظام تعلیمی نظام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 کے بعد ملک کے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں دینی مدارس کو نظریاتی تربیت کے مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
نظریاتی تربیت کا نظام
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کا تعلیمی نظام نوجوان نسل کی سوچ کو تشکیل دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جہاں تنقیدی سوچ کے بجائے عقیدتی اطاعت اور عسکری تربیت کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ میگزین کے مطابق یہ نظام نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر شدت پسند نظریات کو فروغ دینے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر اثرات
طالبان حکام نے واضح کیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول صرف اسی صورت میں دوبارہ کھلیں گے جب نصاب میں “نظریاتی مطابقت” پیدا کی جائے۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی جس کے معاشرتی و اقتصادی اثرات طویل مدتی ہوں گے۔
خطے پر ممکنہ اثرات
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طالبان کے 20 سے زائد علاقائی اور بین الاقوامی عسکری گروہوں سے روابط ہیں۔ ماہرین کے مطابق تعلیم کے ذریعے نوجوانوں کی نظریاتی تربیت خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے اور یہ تشدد پسند نظریات کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
عالمی ردعمل
رپورٹ میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ افغانستان کے تعلیمی نظام پر نظر رکھے اور علاقائی تعاون کے ذریعے شدت پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مربوط اقدامات کرے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف تعلیمی نہیں بلکہ خطے کی سلامتی سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔علاقائی تعاون کے ذریعے شدت پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرے۔
دیکھیں: ایران میں جیش العدل سمیت متعدد تنظیمیں تحلیل؛ متحدہ تنظیم ”جبہ مبارزین مردمی” کے قیام کا اعلان