رپورٹ( روخانہ رحیم وزیر) 15 دسمبر 2025 بروز پیر، سہ پہر تین بجے، بمقام اکیڈمی ادبیات پاکستان (8/H)، اسلام آباد، آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم شہداء کی 11ویں برسی کے موقع پر نوے ژوند ادبی، ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد کے زیرِ اہتمام شہداء کی یاد میں ایک پروقار مشاعرہ اور شمع افروزی کی تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب کا مقصد شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنا امن، محبت اور علم کے فروغ کے عزم کو اجاگر کرنا تھا۔
تقریب کی صدارت معروف شاعر، مصنف اور محقق محمود احمد نے کی۔ تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت حیات خان خٹک (عہدیدار نوے ژوند) نے حاصل کی، جبکہ نظامت کے فرائض بخت بیدار ایڈووکیٹ (وائس چیئرمین، نوے ژوند) نے احسن انداز میں انجام دیے۔ تقریب کا آغاز ساڑھے تین بجے ہوا۔ سینئر مہمانوں میں اینکر پرسن اور سینئر جرنلسٹ حسن خان شامل تھے، جبکہ خصوصی مہمانوں میں شہید زین اقبال کے والد محمد اقبال اور ان کی والدہ بھی شریک ہوئیں جو اے پی ایس اسکول میں بطور ٹیچر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ حیات اقبال حیات سینیئر جرنلسٹ، شاعر اور براڈ کاسٹر، سینیئر جرنلسٹ سراج ظہیر، نور نائب خٹک، حیات خان خٹک، اجمل عزیز نے شرکت کی۔ پروگرام کے آغاز میں نوے ژوند تنظیم کے چیئرمین نسیم مندوخیل نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور شہداء سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مشاعرے کے حصے میں شعراء نے شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ حیات سواتی نے اپنی نظم اور غزل پیش کی جبکہ طیب اللہ خان (بانی، چارسدہ ادبی تحریک) نے بچوں سے متعلق ترنم میں نظم سنائی۔ صوابی سے ڈاکٹر نورالامین احساس نے اپنی نظم کو پریم میں یادگاری تختی کی صورت میں تنظیم کے چیئرمین نسیم مندوخیل کو پیش کیا۔ سردار یوسفزئی (جنرل سیکرٹری، پشتون ادبی سوسائٹی اسلام آباد) نے نظم پیش کی۔ اردو، سرائیکی اور پنجابی کی معروف شاعرہ راشدہ ماہین چوہدری نے اردو نظم سنائی۔ نمل یونیورسٹی کے لیکچرار ابواب علی ابواب نے ترنم میں نظم پیش کی۔ نورالامین قریشی نے امن سے متعلق ٹپے اور نظم پیش کی، جبکہ عزیز خٹک، راج خان مروت اور احساس خٹک نے بھی امن کے موضوع پر شاعری پیش کی۔ شعراء کی تخلیقات نے فضا کو عقیدت، درد اور عزمِ امن کے جذبات سے بھر دیا۔
تقریر و گفتگو کے حصے میں مقررین نے سانحۂ اے پی ایس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ سینئر جرنلسٹ سعدیہ سحر حیدری جن کے شوہر کو طالبان نے قتل کیا ہے انہوں نے اے پی ایس کے معصوم بچوں کے حوالے سے دردناک گفتگو کی۔ مفتی صفی اللہ مذہبی اسکالر، پشتون ايکشن آرگنائزیشن کے عہدیدار اور چیئرمین پشتون ايکشن آرگنائزیشن ریاض بنگش نے بھی اپنے اپنے خیالاتوں کا اظہار کیا۔ پشتون جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر قمر یوسفزئی نے سانحے کے پسِ پردہ عناصر اور سہولت کاروں کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ شہید زین اقبال کی والدہ نے سانحے کے دن کی دل دہلا دینے والی روداد بیان کی جس سے حاضرین اشکبار ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ حملے کے وقت وہ گرلز سیکشن کی انچارج تھیں بیٹے کی شہادت کی خبر کے باوجود انہوں نے تمام بچوں کو بحفاظت بسوں تک پہنچایا اور بعد ازاں اپنے بیٹے کے غم سے دوچار ہوئیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ قاتلوں کو اس کے انجام تک پہنچا دیا جائے اور یہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود مجرموں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم اتحاد و اتفاق کے ساتھ کھڑے ہو تاکہ دوبارہ اس طرح دردناک سانحہ پیش نہ آئے۔ چیف گیسٹ حسن خان نے سانحے کی شدید مذمت کرتے ہوئے پشتونوں کے باہمی اتحاد اور حقیقی امن کے قیام پر زور دیا۔ تقریب کے صدر محمود احمد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ ایسا المیہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، پختون ایک امن پسند قوم ہیں اور اس سانحے کو کسی اور کے اشاروں پر انجام دیا گیا۔
تقریب کے اختتام پر شمع افروزی کی گئی جس کے ذریعے معصوم شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ شہداء کی یاد ہمیشہ زندہ رکھی جائے گی اور امن، رواداری اور علم کے فروغ کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔ آخر میں مہمانوں کے اعزاز میں خصوصی چائے پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔