حق کو ہر دور میں ہی باطل قوتوں کا سامنا رہا، درست کو دبانے کے لئے غلط نے ہر وہ طریقہ آزمایا جو ممکن ہو سکتا تھا، ابتدائے اسلام میں حق کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے پچھائے گئے، انہیں اور انکے ساتھیوں کو تکلیفیں دیں گئیں مگر پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں آ کر اسلام ایک قوت بن کر ابھرا، مگر حق کا وجود ہی باطل کو گورا نہ تھا سو اسلام کے سرفروشوں نے دین کی بقاء اور خدا کے نام کی حفاظت کے لئے میدان کار زار میں بہت بہادری سے باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام ہر معرکے بعد زندہ و تابندہ رہا
محض 30 سال کے مختصر عرصے میں دین اسلام کا پرچم تین براعظموں میں لہرایا تو باطل طاقتوں نے میدان جنگ چھوڑ کر قلم و قرطاس سے اس کا مقابلہ کرنا شروع کیا، غلط عقائد کا پرچار کیا اور اسلام کو فلسفے و منطق کے ہتھیار سے شکست دینا چاہی، خدا کے وجود پر سوال اٹھائے، رسالت پر نکتہ چینی کی، صحابہ کی نیت پر شک کیا، فرشتوں کے وجود سے انکار کیا، غرض اسلام کو شکست دینے کے لئے عقل و خرد کا ہر ہتھیار استعمال کیا اور انسانوں کو تقدیر کا پابند مان کر مجبور محض قرار دیا۔
مسلمان ان باطل نظریات سے متاثر ہوئے تو انہوں نے درست اسلامی تعلیمات کا دامن چھوڑا اور من چاہے عقائد مان کر کشئ اسلام میں چھید کرنے لگے،ایسے میں “واسط” شہر کے ایک قاضی نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو صحیح اسلامی عقائد پر مستند کتاب لکھنے کی ترغیب دی، امام صاحب جو علمِ عقائد پر گہری نظر رکھتے تھے، انہوں نے “عقیدہ واسطیہ” کے نام سے صحیح اسلامی عقائد پر مشتمل کتاب لکھی۔ چونکہ کتاب لکھنے کی خواہش کرنے والے قاضی صاحب کا تعلق “واسط ” نامی شہر سے تھا سو اس کتاب کا نام بھی عقیدہ واسطیہ مشہور ہوگیا۔
امام صاحب نے اس کتاب کو ایسے وقت میں لکھا جب فرقہ باطلہ صفات باری تعالیٰ اور اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں عقلی اعتراضات کر رہے تھے ، اس دور میں بدعات بھی عروج پر تھیں اور مسلمان باطل نظریات میں ڈوبے کفر کو ہی اسلام سمجھ رہے تھے، امام صاحب نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے درست اسلامی عقائد کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ باطل فرقوں پر بھی سخت گرفت کی اور انکے کفریہ عقائد کو اسلامی عقائد کے منافی قرار دیا
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مضبوط عالم دین تھے، وہ عقائد، حدیث، اور اصول فقہ پر گہری دسترس رکھتے تھے، انہیں منطق و فلسفے میں بھی دلچسپی تھی، اس لئے انہوں نے صحیح اسلامی عقائد کے پرچار کے لئے بہترین کتاب تصنیف فرمائی جو اہل سنت کے عقائد کی ترجمان تسلیم کی گئی اور دینی اداروں میں پڑھائی جانے لگی۔
کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقائد ونظریات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ باطلہ کے عقائد بھی واضح کیے اور انہیں عقلی و علمی استدلال سے رد بھی کیا، صفات باری تعالی کے بارے میں فرمایا کہ قرآن میں جس طرح وہ استعمال ہوئی ہیں انہیں اسی طرح بغیر کسی تحریف( تبدیلی)،تعطیل( چھوڑنے) ، تکییف( کیفیت بیان کرنا) تمثیل( مثل قرار دینا) کے ماننا ضروری ہے، مثلاً خدا تعالیٰ کے لئے قرآن مجید میں سننے، دیکھنے کی صفات کا اسی طرح تسلیم کرنا ضروری ہے، اس میں تاویل کی گنجائش نہیں( جبکہ اس متعلق اہل سنت کے علماء کا اختلاف ہے، وہ صفات باری تعالیٰ کی تاویل کرنے کے قائل ہیں).
امام صاحب نے ایمان کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی پر، ملائکہ پر، کتابوں پر، رسولوں پر، موت کے بعد اٹھائے جانے پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور پھر خدا تعالیٰ کا وجود عقلی طور پر ثابت بھی کیا، فرشتوں کو نوری مخلوق ماننا، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا اور قرآن کو خلق اللہ نہیں بلکہ کلام اللہ یعنی اللہ کا کلام ماننا بھی لازم و ضروری قرار دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تقدیر پر ایمان لانے کے دو درجے بیان کیے،پہلا درجہ یہ ہے کہ اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ پہلے سے جانتا ہے کہ مخلوق کیا عمل کرے گی، جبکہ تقدیر پر ایمان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہیں گے وہی ہوگا، جو نہیں چاہیں گے وہ کسی طور نہیں ہوسکتا۔
کتاب میں مؤلف کا انداز تحریر بہت اچھوتا ہے، مختصر مگر جامع، عقائد میں جہاں عقلی دلیل کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے عقلی طور پر دلائل بھی دیے ہیں اور فرقہ باطلہ( معتزلہ، ناجیہ،خارجیہ وغیرہ) کا رد بھی کیا ہے۔
اہل سنت علماء نے عقائدِ صحیحہ پر لکھی اس کتاب کو بہترین اور قابلِ قدر قرار دیا ہے، دیوبند مکتبہ فکر کے بڑے عالم مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے “آپ کے مسائل اور انکا حل” میں کتاب کے متعلق لکھا کہ
” عقیدہ واسطیہ میں شیخ ابن تیمیہؒ نے قرآن و سنت اور صحابہ کے اقوال سے توحید اور صفاتِ الٰہی کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب دیوبند کے نصاب میں بھی داخل ہے”
اسی طرح مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے تاریخ دعوت وعزیمت کی دوسری جلد میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
“ابن تیمیہؒ کی عقیدہ واسطیہ ایک اصلاحی صدا ہے، جس نے دورِ انحراف میں امت کو اصل سلفی عقائد کی طرف متوجہ کیا۔ یہ کتاب ہر صاحبِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے پڑھے اور سمجھے”
شیح صالح الفوزان شرح عقیدہ واسطیہ میں لکھتے ہیں کہ
“عقیدہ واسطیہ اہل السنۃ والجماعۃ کی عقیدہ میں اصل کتابوں میں سے ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو عقیدہ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہے۔”
سو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی شخص عقائد کے اعتبار سے مظبوطی چاہتا ہے اور ہر ایک عقیدے کی بنیاد اور اسکے عقلی دلائل سے شناسائی کا خواہشمند ہے تو اسے امام ابن تیمیہ کی کتاب ” عقیدہ واسطیہ” ضرور پڑھنی چاہیئے، اب اس کی اردو شروحات بھی بازار سے بآسانی مل سکتی ہیں جن میں بہتر اور مستند شرح شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی ہے، جس کا اردو ترجمہ پروفیسر جار اللہ ضیاء نے کیا ہے۔