آسٹریلیا کی ریاست نیو ساوتھ ویلز کے ساحلی شہر سڈنی میں واقع بونڈائی بیچ پر پیش آنے والے ہولناک فائرنگ کے واقعے کو پولیس نے باضابطہ طور پر دہشت گرد حملہ قرار دے دیا ہے، جبکہ اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 12 ہو گئی ہے، جن میں ایک حملہ آور بھی شامل ہے۔ حکام کے مطابق یہ حملہ سڈنی کی یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔
نیو ساوتھ ویلز کے وزیرِاعلیٰ کرس منز نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب بونڈائی بیچ پر ایک ہزار سے زائد افراد موجود تھے، جن میں بڑی تعداد یہودی خاندانوں کی تھی جو ہنوکا کے مذہبی تہوار کی تقریبات میں شریک تھے۔ ان کے مطابق جو رات خوشی، امن اور مذہبی ہم آہنگی کی علامت ہونی چاہیے تھی، وہ نفرت اور تشدد میں بدل گئی۔
پولیس کمشنر میل لینین نے بتایا کہ اس واقعے میں 29 افراد زخمی ہوئے جنہیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔ زخمیوں میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جن کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جا رہی ہے اور دونوں کا آپریشن جاری ہے۔ کمشنر کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی عمروں کی تصدیق تاحال ممکن نہیں اور صورتحال مسلسل بدل رہی ہے۔
حملہ آوروں کی صورتحال اور تحقیقات
پولیس کے مطابق دو حملہ آوروں میں سے ایک موقع پر ہی ہلاک ہو گیا، جبکہ دوسرا شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج ہے اور پولیس کی حراست میں ہے۔ پولیس کمشنر میل لینین نے کہا کہ حملہ آوروں کی شناخت فی الحال ظاہر نہیں کی جا رہی کیونکہ متاثرہ خاندانوں کو اطلاع دینے کا عمل جاری ہے۔
آزاد ذرائع کے مطابق ایک حملہ آور کی شناخت نوید اکرم نے نام سے ہوئی ہے جس کی شہریت ابھی تک نامعلوم ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس امکان کی مکمل تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا اس حملے میں کوئی تیسرا حملہ آور یا سہولت کار بھی شامل تھا۔ پولیس کو جائے وقوعہ کے قریب ایک کار سے دھماکہ خیز مواد بھی ملا ہے، جسے ہلاک ہونے والے حملہ آور سے جوڑا جا رہا ہے۔ بم ڈسپوزل یونٹ کی ٹیم کیمبل پریڈ، بونڈائی میں موجود ہے اور علاقے کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔
حملہ آور کے بارے میں پروپیگنڈا
اس سے قبل بھارتی میڈیا، اسرائیلی میڈیا، مغربی میڈیا اور چند سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے پاکستانی نژاد آسٹریلین شہری نوید اکرم کو حملہ آور قرار دینا شروع کر دیا جو صرف اس حقیقی حملہ آور کا ہم نام تھا۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد حملہ آور کو پاکستان کے ساتھ جوڑنا تھا۔

تاہم ظاہری طور پر حملہ آور کی جسمانی ہیئت اس شخص سے یکسر مختلف ہے جسے میڈیا حملہ آور بنا کر پیش کر رہی ہے۔ نوید اکرم نے خود بھی اپنے سوشل میڈیا پر اس کی تصدیق کی اور عوا،م سے درخواست کی ہے کہ وہ اسے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں۔ یاد رہے کہ آفیشل ذرائع نے ابھی کسی حملہ آور کا نام اور تصویر ظاہر نہیں کیے۔
انسدادِ دہشت گردی تحقیقات اور سکیورٹی اقدامات
پولیس کمشنر کے مطابق اس واقعے کی بڑی تحقیقات انسدادِ دہشت گردی یونٹ کی قیادت میں کی جائیں گی اور تمام ممکنہ پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی غیر مصدقہ معلومات اور ناموں پر یقین نہ کیا جائے اور پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔
حکام نے بونڈائی بیچ اور اطراف کے علاقوں میں ایک ممنوعہ زون قائم کر دیا ہے، جبکہ مشتبہ دھماکہ خیز آلات کو ناکارہ بنانے کے لیے خصوصی سکیورٹی آلات اور ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فی الحال تمام تفصیلات فراہم کرنا قبل از وقت ہے۔
گن قوانین کے بعد سب سے ہلاکت خیز حملہ
پولیس کے مطابق یہ واقعہ 1996 کے پورٹ آرتھر حملے کے بعد آسٹریلیا میں سب سے ہلاکت خیز فائرنگ کا واقعہ ہے۔ پورٹ آرتھر میں 35 افراد کی ہلاکت کے بعد آسٹریلیا نے دنیا کے سخت ترین اسلحہ قوانین نافذ کیے تھے، جن کے نتیجے میں عوامی مقامات پر بڑے حملوں میں نمایاں کمی آئی تھی۔
بونڈائی کا واقعہ ان قوانین کے بعد پیش آنے والا سب سے سنگین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم، عالمی اور سفارتی ردِعمل
آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے اس حملے کو آسٹریلوی عوام پر ایک منظم اور نفرت پر مبنی دہشت گرد حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے خلاف اس سفاکانہ تشدد کی آسٹریلیا میں کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ پوری قوم کے دل پر گہرا زخم ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہنوکا کی تقریب کے دوران ہونے والے اس سفاکانہ اور مہلک حملے سے شدید خوفزدہ اور غمزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا دل متاثرین کے ساتھ ہے۔
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے بونڈائی حملے کو نہایت سفاکانہ دہشت گرد حملہ قرار دیا اور کہا کہ ہنوکا کے پہلے دن امن اور روشنی کے پیغام کو خون میں ڈبو دیا گیا۔
پاکستان کی مذمت اور اظہارِ یکجہتی
پاکستان نے بھی بونڈائی بیچ پر ہونے والے دہشت گرد حملے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اس دہشت گردی کے واقعے سے شدید رنجیدہ ہے اور آسٹریلیا کی حکومت، عوام اور بالخصوص زخمیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی انسانیت کے خلاف ناقابلِ معافی جرم ہے اور پاکستان اس درد کو بخوبی سمجھتا ہے۔
حملہ آور کو روکنے والے شہری کی بہادری
آسٹریلوی میڈیا کے مطابق 43 سالہ احمد ال احمد وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک حملہ آور سے کشتی کی، اس کا اسلحہ چھینا اور مزید جانی نقصان کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ احمد ال احمد، جو دو بچوں کے والد اور سدرلینڈ میں پھلوں کی دکان کے مالک ہیں، اس وقت ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کے مطابق انہیں اسلحے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور وہ محض موقع پر موجود تھے جب انہوں نے مداخلت کا فیصلہ کیا۔

پولیس اور حکومت کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ آسٹریلیا کی جدید تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جبکہ تحقیقات جاری ہیں اور مزید تفصیلات آنے والے وقت میں سامنے لائی جائیں گی۔
دیکھیں: ہرات میں این آر ایف کی مبینہ کارروائی، طالبان کا ایک رکن ہلاک