یہ رپورٹ جس میں ’ڈیورنڈ لائن‘ کو فرضی سرحد کے طور پر پیش کیا گیا ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کابل میں 1,000 سے زائد افغان علما نے ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے جس میں افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنا “حرام” قرار دیا گیا ہے۔
آئی سی سی پراسیکیوٹر کے یہ بیانات محض اندرونی اختلافات نہیں بلکہ عالمی سطح پر سیاسی اثراندازی کے ایسے شواہد ہیں جو غزہ، اسرائیل اور جنگی جرائم کے مقدمات میں عدالتی عمل کی ساکھ کو براہِ راست چیلنج کرتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے بارڈر پر پھنسے ٹرکوں، بند دوکانوں اور پریشان حال افغان تاجروں کی تصویریں تو نمایاں کیں، مگر یہ سوال کمزور پڑ گیا کہ پاکستان نے آخر بارڈر کنٹرول سخت کیوں کیے؟
اجلاس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اب خطے کے ممالک براہ راست ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور غیر مغربی دنیا ایک نئی سفارتی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔
حالیہ عرصے میں ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک ڈرون حملے میں تاجکستان میں چینی ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے علاقائی سطح پر ’’ٹرانس نیشنل دہشت گرد نیٹ ورکس‘‘ کی موجودگی اور ان کے بڑھتے خطرے کو غیر معمولی سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔
عادل راجہ نے اپنے جرم کو تسلیم کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھائی اور زیریں عدالت کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا، ہائی کورٹ نے عادل راجہ کی سزائیں بڑھا دیں، جرمانہ میں اضافہ کر دیا اور اسے معافی نامے اپنے تمام سوشل میڈیا پروفائلز پر مسلسل 28 دن تک نمایاں آویزاں رکھنے کا حکم دیا۔
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ ناروے کے سفیر کی عدالت میں غیر معمولی شرکت بین الاقوامی سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان نے ان سے سختی سے کہا کہ آئندہ ایسے اقدامات نہ اٹھائیں۔
افغانستان کے سرحدی و داخلی چیلنجز کے تناظر میں وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں منعقدہ علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجتماع میں پیش کیا گیا پانچ نکاتی فتویٰ اور لائحۂ عمل پورے ملک کے لیے ایک مضبوط اور جامع منشور ہے۔
سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ محض ایک سفارتی بے احتیاطی نہیں بلکہ ایک خطرناک مثال قائم کر سکتا ہے۔ اگر آج ایک سفیر کسی سماعت میں شریک ہوتا ہے تو کل کو کسی سیاسی رہنما کے مقدمے میں دوسرے ممالک کے سفرا کی حاضری کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے جو ریاستی خودمختاری کے لیے خطرناک مثال ثابت ہوگا۔
ذرائع کے مطابق یہ تمام خبریں بے بنیاد اور افواہوں پر مبنی ہیں، اور گورنر ہاؤس یا دیگر اہم مقامات پر کسی قسم کی فوجی تعیناتی نہیں کی جا رہی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے دعوے سراسر غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔