مظفرآباد میں وفاقی حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹ کے درمیان جاری مذاکرات اہم پیش رفت کے بعد کامیابی کے قریب پہنچ گئے۔ فریقین نے بیشتر نکات پر اتفاق کر لیا، جبکہ چند امور کو آئینی و قانونی مشاورت کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں عوامی ایکشن کمیٹی کی نمائندگی شوکت نواز میر، امجد علی خان ایڈووکیٹ اور انجم زمان اعوان نے کی، جبکہ حکومتی وفد میں راجہ پرویز اشرف، رانا ثناءاللہ، قمر زمان کائرہ اور دیگر شامل تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر یہ کمیٹی براہِ راست مظفرآباد پہنچی تھی تاکہ احتجاجی صورتحال کا پرامن حل نکالا جا سکے۔
آزاد کشمیر میں پانچ روزہ بندش کے بعد آج انٹرنیٹ سروس بھی بحال ہو جائے گی۔

شہداء، زخمیوں اور متاثرین کے لیے معاوضہ
یکم اور دو اکتوبر کے واقعات میں جاں بحق شہریوں کے لواحقین کو پولیس اہلکاروں کے مساوی معاوضہ اور ایک سرکاری ملازمت دی جائے گی، جبکہ زخمیوں کو فی کس دس لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کا جائزہ لے گا۔
تعلیم و صحت کے حوالے سے اقدامات
مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن میں دو نئے تعلیمی بورڈ قائم کیے جائیں گے، جنہیں 30 دن کے اندر فیڈرل بورڈ اسلام آباد سے منسلک کیا جائے گا۔ صحت کے شعبے میں حکومت 15 دن کے اندر ہیلتھ کارڈ پر عملدرآمد کے لیے فنڈز جاری کرے گی، جبکہ ہر ضلع میں سی ٹی اسکین مشینیں فراہم کی جائیں گی۔ تحصیل اسپتالوں میں نرسز کی تعیناتی اور آپریشن تھیٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔
توانائی، ترقیاتی اور زمینوں سے متعلق فیصلے
وفاقی حکومت آزاد کشمیر میں بجلی کے ترسیلی نظام کی بہتری کے لیے 10 ارب روپے فراہم کرے گی، جبکہ 2019 کے عدالتی فیصلے کے مطابق ہائیڈل منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ منگلا ڈیم ریزنگ سے متاثرہ خاندانوں کی زمینیں 30 دن میں ریگولرائز کی جائیں گی۔
ترقیاتی منصوبوں میں کہوڑی/کمسر اور چھپلانی سرنگوں کی فزیبلٹی اسٹڈی، میرپور ایئرپورٹ منصوبہ اور پانی کی اسکیمیں شامل ہیں۔ میرپور اور کوٹلی میں پلوں کی تعمیر بھی موجودہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام کا حصہ بنائی گئی ہے۔
حکومتی اصلاحات اور مراعات میں کمی
مذاکرات میں حکومت آزاد کشمیر کی کابینہ کی تعداد 53 سے کم کر کے صرف 20 وزراء اور مشیران تک محدود کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ اشرافیہ کی مراعات، سابق وزرائے اعظم و صدور کی سہولیات اور سرکاری گاڑیوں کے معیار پر بھی نظرثانی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسمبلی ارکان کی پنشن ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔
مہاجر نشستیں اور سیاسی اصلاحات
مہاجرین کی مخصوص 12 نشستوں سے متعلق فوری فیصلہ نہ ہوسکا۔ تاہم، اس معاملے پر غور کے لیے ایک اعلیٰ سطحی چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں دو ارکان وفاقی حکومت، دو آزاد کشمیر حکومت اور دو عوامی ایکشن کمیٹی سے ہوں گے۔ اس دوران مہاجرین کے فنڈز اور وزارتوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
مزید برآں، 30 ستمبر تا 2 اکتوبر کے دوران گرفتار کشمیری مظاہرین کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ تعلیمی اداروں میں داخلے اب مکمل طور پر اوپن میرٹ پر ہوں گے۔
عملدرآمد کمیٹی کی تشکیل
تمام فیصلوں پر نگرانی اور عملدرآمد کے لیے مانیٹرنگ اینڈ امپلیمنٹیشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں وفاقی وزراء امیر مقام (چیئرمین) اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے ساتھ آزاد کشمیر حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے دو دو نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی ہر 14 دن بعد پیش رفت کا جائزہ لے گی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئندہ بجٹ میں آزاد کشمیر کے لیے 30 ارب روپے کے اضافی فنڈز فراہم کرے گی، جن میں 6 ارب بجلی سبسڈی، 3 ارب آٹا سبسڈی اور باقی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص ہوں گے۔
یہ معاہدہ ریاست میں جاری احتجاجی بحران کے خاتمے کی سمت ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
دیکھیں: وزیر دفاع خواجہ آصف کی آزاد کشمیر کے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل