کراچی میں کھلے مین ہول میں گر کر معصوم ابراہیم کی ہلاکت نے پورے صوبائی نظامِ حکمرانی کی قلعی کھول دی ہے۔ یہ سانحہ کسی ایک خاندان کا غم نہیں، بلکہ سندھ حکومت، پیپلز پارٹی کی طویل حکمرانی اور کراچی کے بلدیاتی ڈھانچے کی مجموعی ناکامی کا آئینہ ہے۔ پاکستان کے معاشی دارالحکومت میں اگر ایک بچہ اس لیے زندگی ہار دے کہ گٹر کا ڈھکن لگانا کسی ادارے کی ترجیح ہی نہ ہو، تو یہ حادثہ نہیں، حکومتی بدانتظامی کی سنگین ترین علامت ہے۔
سترہ برسوں سے سندھ پر بلاشرکتِ غیرے حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کراچی کو آج بھی بنیادی شہری سہولتیں دینے میں ناکام ہے۔ شہر میں کھلے مین ہول موت بانٹتے پھرتے ہیں، نکاسیٔ آب کا نظام تباہ حال ہے، اور کے ایم سی، ڈی ایم سیز، سمیت تمام بلدیاتی ادارے صوبائی وزارتِ بلدیات کے ہاتھوں مکمل طور پر بے اختیار کر دیے گئے ہیں۔ پانی، صفائی اور سیوریج کے محکمے سیاسی مداخلت، کرپشن اور اختیارات کی کھینچا تانی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ابراہیم کی موت اس ٹوٹے ہوئے نظام کا ایک اور دردناک ثبوت ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر نہ شہری محفوظ ہیں، نہ بچے اور نہ بزرگ۔ کبھی کوئی نوجوان تیز رفتار ڈمپر کی زد میں آ کر جان سے جاتا ہے، کبھی بارشوں میں پورا شہر ڈوب جاتا ہے، اور کبھی ایک معصوم کھلے گٹر میں بہہ جاتا ہے۔ یہ شہر پہلے بھی بے شمار ’’ابراہیم‘‘ کھو چکا ہے اور شاید مزید کھو دے، کیونکہ یہاں انسانی جان کی قیمت ایک مین ہول کے ڈھکن سے بھی کم ہے۔
ترقیاتی منصوبوں اور جعلی اشتہاری مہمات پر اربوں روپے خرچ کرنے والی سندھ حکومت اگر ایک میٹروپولیٹن شہر میں کھلے گٹر بند نہیں کر سکتی، تو اس کے ترقیاتی دعوے کس کام کے؟ شہریوں کے لیے سب سے بنیادی ضرورت وہ نظام ہے جو انہیں روزمرہ زندگی میں محفوظ رکھے اور یہی نظام سندھ میں شدید بوسیدہ ہو چکا ہے۔
سب سے بڑا سوال مقامی حکومتوں کے اختیارات کا ہے، جو سندھ حکومت نے منظم طور پر ختم کر دیے ہیں۔ یونین کمیٹیاں، ٹاؤنز، کے ایم سی سب کاغذی ادارے بن چکے ہیں۔ اصل طاقت صوبائی وزراء اور سیکریٹریز کے پاس ہے، جبکہ کراچی کا میئر محض علامتی عہدہ رہ گیا ہے۔ جب اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی روکی جائے گی، تو گٹر کھلے ہی رہیں گے اور حادثات ہوتے رہیں گے۔
ہر سانحے کے بعد حکومت کی وہی پرانی رسم؛ نوٹس، کمیٹیاں، بیان باز مگر کوئی نہیں بتاتا کہ گٹر کھلا کیوں تھا؟ کس نے کام نہیں کیا؟ کس کو پیسہ ملا؟ کون ذمہ دار تھا؟ اس عدم شفافیت نے پورے نظام کو قبرستان کی خاموشی میں بدل دیا ہے، جہاں ہر نئی لاش صرف ایک فائل بن کر رہ جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس بار سندھ حکومت کچھ سیکھے گی؟
اگر واقعی کراچی کو مزید سانحات سے بچانا ہے تو حکومت کو:
- تمام کھلے مین ہولز فوری بند کرنے
- بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے
- سیاسی بھرتیوں کے بجائے میرٹ نافذ کرنے
- سیوریج اور صفائی کے پائیدار نظام کو فعال کرنے
- اور صوبے میں گورننس کو سنجیدگی سے بہتر بنانے
جیسے فوری اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ابراہیم صرف ایک بچہ نہیں تھا۔ وہ سندھ کے عوام کا وہ مظلوم چہرہ ہے جو برسوں سے نظرانداز ہو رہا ہے۔ اس کی موت نے پورے نظام کی غفلت، بدانتظامی اور بے حسی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر اس سانحے کے بعد بھی حکومت نہ جاگی تو کراچی میں گٹر، سڑکیں اور ادارے مزید زندگیاں نگلتے رہیں گے اور پھر ہر مرنے والا بچہ سندھ حکومت کے کھاتے میں لکھا جائے گا۔
دیکھیں: پاکستان میں رواں سال ایڈز کے 81 ہزار 874 کیسز رپورٹ— تازہ اعدادوشمار جاری