پاکستان نے گزشتہ چند دنوں میں افغانستان کے مختلف علاقوں کابل، پکتیکا، خوست، ننگرہار اور جلال آباد میں انتہائی مہارت کے ساتھ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، داعش خراسان اور افغان طالبان کے مخصوص کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ تمام کیمپس بھارتی ایما پر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں کیلئے استعمال کیے جاتے تھے۔
یہ کارروائیاں پاکستان کے لیے محض جوابی حملے نہیں بلکہ ایک نئے دفاعی نظریے کی بنیاد ہیں جس کے تحت اب دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب “دفاعی پوزیشن” سے نکل کر ”جوابی حکمتِ عملی” اختیار کر چکا ہے۔
پاک۔افغان تعلقات – اعتماد کے بحران سے تصادم تک
افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے کئی مواقع آئے مگر ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں، سرحدی حملوں اور پراکسی جنگ کے الزامات نے تعلقات کو کشیدہ تر کر دیا۔
اب صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان نے براہِ راست افغان حدود میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، جس سے دوطرفہ تعلقات ایک نئے اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔
افغان حکومت کو اب یہ طے کرنا ہے کہ کیا وہ اپنی سرزمین دہشتگردوں کے لیے استعمال ہونے دے گی یا عملی اقدامات کرے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ ہر حملے کا جواب افغان سرزمین پر جا کر دیا جائے گا۔
دوحہ مذاکرات: ممکنہ نتائج اور چیلنج
اطلاعات کے مطابق آج شام دوحہ میں مذاکرات ہوں گے جس میں اس کشیدگی کے دیرپا حل پر تبادلہ خیال ہوگا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اور وزیرِدفاع خواجہ آصف پاکستان کی نمائندگی کریں گے، جبکہ افغانستان کی جانب سے ملا یعقوب اور افغان انٹیلیجنس چیف عبد الحق واثق مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
یہ ملاقات دوحہ (قطر) میں ہو رہی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان تنازعات کے حل کا مرکز رہا ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں یہ بات واضح ہے کہ یہ مذاکرات روایتی “مفاہمتی گفتگو” سے مختلف ہوں گے۔
پاکستان کا مؤقف اب سخت اور واضح ہے: “افغان سرزمین سے دہشتگردی بند نہ ہوئی تو کارروائیاں جاری رہیں گی”۔
کیا دوحہ مذاکرات کشیدگی کم کر سکیں گے؟
ممکن ہے کہ دوحہ مذاکرات میں عارضی جنگ بندی یا اعتماد سازی کے اقدامات پر اتفاق ہو جائے مگر زمینی حقائق مختلف ہیں۔
افغان طالبان کے اندرونی دھڑوں میں ٹی ٹی پی اور خراسان گروپ کی ہمدردیاں اب بھی موجود ہیں، اور یہی پاکستان کےلیے اصل خطرہ ہے۔
پاکستان کی عسکری قیادت اس بار نرمی یا تاخیر کے بجائے واضح عملی اقدامات چاہتی ہے، جس کا اظہار حالیہ حملوں سے ہو چکا ہے۔
طاقت، سفارت کاری اور استقامت کا نیا توازن
یہ واضح ہے کہ پاکستان اب ریاستی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
افغان طالبان کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے ۔ یا تو وہ دوطرفہ تعلقات میں تعاون کا راستہ اختیار کریں، یا بین الاقوامی تنہائی اور معاشی دباؤ کے لیے تیار رہیں۔
پاکستان کا نیا مؤقف نہ صرف علاقائی توازن کو از سرِ نو متعین کرے گا بلکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو ایک نئے عالمی تناظر میں لے جائے گا۔
دوحہ مذاکرات اس وقت افغان حکومت کیلئے امن اور تصادم کے درمیان ایک آخری موقع کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر افغان حکومت نے مخلصانہ رویہ اختیار نہ کیا تو جنوبی ایشیا ایک نئی غیر اعلانیہ جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے اور پاکستان اس بار دفاع نہیں، فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہے۔