پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد بھارت، اسرائیل اور افغان طالبان حکومت کے مابین بڑھتی قربت نے خطے میں ایک نئی سفارتی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے تزویراتی حلقوں نے اس صورتِ حال کو “ابھرتا ہوا گٹھ جوڑ” قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تینوں فریق پاکستان–سعودیہ دفاعی شراکت داری کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
یہ تشویش اُس وقت مزید گہری ہوئی جب 10 اکتوبر کو طالبان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کا اچانک دورہ کیا جو طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کا پہلا باضابطہ دورہ تھا۔ محض دو دن بعد، 12 اکتوبر کو، طالبان جنگجوؤں نے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر غیر اعلانیہ حملے کیے۔ یہ تمام واقعات اس وقت پیش آئے جب پاکستان اور سعودی عرب نے 17 ستمبر کو “اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ” پر دستخط کیے، جس کے تحت پاکستانی افواج کو “محافظِ حرمین شریفین” کے تقدس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے بھارت اور اسرائیل سے بڑھتے روابط دراصل ایک “منظم جیوپولیٹیکل حکمتِ عملی” کا حصہ ہیں، جس کا مقصد نئے پاک–سعودیہ اتحاد کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
یہ سفارتی مثلث 5 اکتوبر کو اس وقت متحرک ہوا جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے اسرائیلی ہم منصب ایلی کوہن سے ملاقات کی، جس میں انسدادِ دہشتگردی کے تعاون اور اسٹریٹجک اشتراک پر اتفاق کیا گیا۔ چند دن بعد افغان وزیرِ خارجہ کی بھارت آمد نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ کابل اب “انڈو–اسرائیلی بلاک” کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہا ہے۔ ایک سیکیورٹی ماہر کے مطابق: “سعودی–پاکستان دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک منظم کوشش جاری ہے، جس میں طالبان کا بھارت سے رابطہ ایک واضح سیاسی پیغام ہے۔”
پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اب بھی افغان سرزمین سے طالبان حکومت کی “پراکسی فورس” کے طور پر کام کر رہی ہے، جو پاکستان کے اندرونی اور سرحدی امن کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف پاکستان کو دباؤ میں لانا ہے بلکہ خطے میں بنتے نئے توازن کو بھی بگاڑنا ہے۔
اسلام آباد کے خارجہ دفتر نے تاحال اس مبینہ گٹھ جوڑ پر باضابطہ تبصرہ نہیں کیا، تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق ستمبر کے دفاعی معاہدے کے بعد سے ایک “منظم دشمنی کا پیٹرن” واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان–سعودیہ دفاعی شراکت داری نے جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں ایک نئی جہت شامل کر دی ہے۔ یہ اتحاد دفاعی تعاون، انٹیلیجنس شیئرنگ اور حرمین شریفین کے تحفظ جیسے نکات پر مبنی ہے، جسے خطے میں انڈو–اسرائیلی اثر و رسوخ کا توازن قائم کرنے کی ایک کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ایک ماہر کے مطابق، “بھارت اور اسرائیل پہلے ہی سیکورٹی و انٹیلیجنس کے میدان میں قریبی تعاون رکھتے ہیں۔ طالبان حکومت کی اس بلاک کے ساتھ بڑھتی قربت وقتی فائدے کی خواہش تو ہو سکتی ہے، مگر اس سے وہ مسلم دنیا میں مزید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے۔”
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ ایک اعلیٰ سرکاری ذریعے کے مطابق، “یہ شیطانی اتحاد ذلت کا شکار ہوں گے، کیونکہ پاکستان اب صرف ایک خطے کی طاقت نہیں بلکہ محافظِ حرمین شریفین کی حیثیت سے بھرپور اعتماد اور تیاری کے ساتھ کھڑا ہے۔”
جوں جوں علاقائی سفارتی شطرنج کی بساط بدل رہی ہے، اسلام آباد اپنی عسکری اور اخلاقی طاقت کے ساتھ اس ابھرتی ہوئی دشمنی کا سامنا کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتا ہے۔