استنبول مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کی سفارتکاری کو ٹھہرانا حقائق کے بالکل برعکس ہے مذاکرات کے عینی شاہدین اور ثالث فریقوں کی خفیہ رپورٹ کے مطابق مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ افغانستان کے اندرونی مسائل اور امریکا کو بلاوجہ ضامن بنانے کا مطالبہ تھا۔
مذاکرات کے آغاز سے ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ طالبان وفد بااختیار ہونے کے بجائے قندھار، کابل اور خوست سے ملنے والی الگ الگ ہدایات پر عمل کر رہا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق وفد کے ایک ایک رکن کو مختلف مقامات سے ہدایات موصول ہو رہی تھیں اور بسا اوقات تو کمرۂ مذاکرات سے باہر ہونے والے رابطوں کی بنیاد پر سابقہ فیصلوں کا انکار ہی کردیتے تھے۔ جس کے باعث باہمی اعتماد متاثر ہوا اور مذاکراتی عمل میں مزید پیش رفت ممکن نہ ہوسکی۔
مذاکرات میں اہم مرحلہ تب سامنے آیا جب تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اقدامات سے متعلق تحریری ضمانتوں پر پیش رفت قریب ہوتے دکھائی دے رہی تھی تو قندھار کی جانب سے طالبان وفد کو رضامندی کا اشارہ ملا پھر وقفے کے بعد طالبان وفد نے یہ مطالبہ پیش کر دیا کہ اس معاہدے میں امریکا کو بطورِ ضامن کے شامل کیا جائے۔ یاد رہے کہ اس قسم کا مطالبہ طے شدہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی گزشتہ مذاکراتی ادوار میں اس سے متعلق کسی قسم کی کوئی گفتگو ہوئی، طالبان وفد کے اس مطالبے نے ثالثوں سمیت تما شرکا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
ثالث ذرائع کے مطابق طالبان وفد کا یہ عمل درحقیقت سیکیورٹی اور امن و امان کے بجائے مالی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے تھا اور دوطرفہ معاہدے سے نکال کر ایک ایسے سہ فریقی معاہدے میں تبدیل کرنا تھا کہ جس میں امریکا بھی شامل ہو اور اس کے ذریعے مالی امداد کی بحالی ممکن ہوسکے۔ اس عمل نے مذاکرات کے بنیادی مقصد کو سبوتاژ کر کے انہیں امداد اور مالی مفادات کی جانب موڑ دیا۔
اجلاس کے دوران متعدد مواقع پر ایسا ہوا کہ طے شدہ نکات کو نظر ثانی کے لیے دوبارہ سے دیکھا گیا یا انہیں مؤخر کیا گیا۔ مذاکراتی عمل میں رسمی گفتگو تو کی گئی مگر اکثر شرائط پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے راستے جان بوجھ کر بند کیے۔ ماہرین نے اس رویے کو طالبان حکومت کے اندرونی سیاسی تنازعات اور ذاتی مفادات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ثالثوں نے نجی طور پر تین اہم نکات پر متفقہ رائے کا اظہار کیا ہے: اول، پاکستان کے مطالبات بین الاقوامی معیارات کے مطابق اور جائز ہیں۔ دوم، افغان وفد کسی فنی یا عملی رکاوٹ کی بجائے اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے مؤثر طریقے سے بات چیت نہیں کر سکا۔ سوم، کابل میں موجود ایک بااثر دھڑا اس مسئلے کو واشنگٹن کے دائرہ کار میں لے جا کر امدادی اور مالی مذاکرات دوبارہ شروع کروانا چاہتا تھا۔
تجزیہ نگاروں نے اس واقعے کو محض مذاکراتی ناکامی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور مالیاتی مفادات قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک افغان حکومت اپنے دھڑوں کے درمیان کوئی متفقہ پالیسی مرتب نہیں کرتی اور مذہبی انتہا پسند گروہوں کی روک ٹوک نہیں کرتی تب تک پائیدار حل ممکن نہیں۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی کا تعلق سفارتی نااہلی نہیں بلکہ اس کے پیچھے داخلی انتشار اور مالی مفادات کارفرما ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتیجہ خیز مذاکرات اسی وقت ممکن ہیں جب کابل اپنے اندرونی مسائل حل کرے اور مذاکرات کا دائرہ سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک محدود رکھے، نہ کہ انہیں بیرونی امداد اور مالی مفادات کی نذر کر دے۔
دیکھیں: استنبول مذاکرات میں غیر سنجیدگی کے پاک افغان تجارت پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان