سال 2025 کے دوران خیبر پختونخوا ایک بار پھر دہشت گردی کی شدید لہر کی زد میں رہا، جہاں مجموعی طور پر ایک ہزار 588 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ سیکیورٹی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں 223 عام شہری شہید اور 570 زخمی ہوئے، جبکہ پولیس کے 137 اہلکار شہید اور 236 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 18 اہلکار جان سے گئے، جب کہ فیڈرل کانسٹیبلری کے 124 جوان شہید اور 244 زخمی ہوئے۔ ریاستی کارروائیوں کے دوران 348 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ 2025 میں پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی ایک نئے اور زیادہ منظم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ حملوں کی نوعیت، اہداف کے انتخاب اور شدت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالعدم تنظیمیں نہ صرف اپنی سرگرمیاں برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ سرحد پار محفوظ ٹھکانوں اور نیٹ ورکس کے ذریعے اپنی کارروائیوں میں وسعت بھی لا رہی ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 2025 کے دوران پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں میں افغان شہریوں کی شناخت بھی سامنے آئی ہے، جن میں بعض براہِ راست حملوں میں ملوث پائے گئے جبکہ کچھ افراد سہولت کاری، لاجسٹک سپورٹ اور منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ اگرچہ تمام کیسز کی تفصیلات عوامی نہیں کی گئیں، تاہم یہ پہلو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی تناؤ کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
عسکریت پسندی کی موجودہ لہر میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا کردار نمایاں رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستانی حکام مسلسل یہ مؤقف اختیار کرتے رہے ہیں کہ تنظیم کی قیادت اور جنگجوؤں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں، جہاں سے وہ پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اسی طرح بی ایل اے اور اس سے منسلک نیٹ ورکس کی افغانستان میں موجودگی نے پاک-افغان تعلقات میں ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔
2025 میں دہشت گردی کا مجموعی رجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض داخلی سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ براہِ راست علاقائی جیوپولیٹکس اور سرحد پار عوامل سے جڑ چکا ہے۔ پاکستان ایک طرف عسکری اور انٹیلی جنس بنیادوں پر انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر رہا ہے، تو دوسری جانب افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر یہ مطالبہ بھی دہرا رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دی جائے۔
ماہرین کے مطابق جب تک ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروہوں کے خلاف سرحد پار مؤثر کارروائی، علاقائی تعاون اور اعتماد سازی نہیں ہوتی، تب تک 2025 میں نظر آنے والی عسکریت پسندی کی یہ لہر مستقبل میں مزید پیچیدہ صورت اختیار کر سکتی ہے۔