بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی سربراہ ماہرنگ بلوچ کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں جنہوں نے بلوچستان میں سرگرم کالعدم تنظیموں اور پروپیگنڈا مہمات کے درمیان تعلق کو مزید واضح کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، ماہرانگ بلوچ نہ صرف کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے بیانیے کو پھیلاتی ہیں بلکہ مختلف مواقع پر براہِ راست ان کی کارروائیوں کی پردہ پوشی بھی کرتی رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماہرنگ نے جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کے بعد ہلاک ہونے والے بی ایل اے دہشت گرد کی لاش چھیننے کی کوشش کی تھی۔ اسی طرح مشخ حملے کے مرکزی کردار ودود ستک زئی کو، جسے بی ایل اے نے ایک خودکش بمبار کے طور پر تسلیم کیا، ماہرنگ نے ’’لاپتہ شخص‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ مزید یہ کہ گوادر اور مشخ حملوں میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی لاشوں کے حصول کی کوشش بھی انہوں نے کی۔
مزید انکشاف یہ ہوا ہے کہ ماہرنگ بلوچ کا اپنا کزن اور باڈی گارڈ صہیب لانگو، جولائی 2025 میں تربت میں بی ایل اے کے ایک سرمچار کے طور پر ہلاک ہوا۔ یہ واقعہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے قریبی حلقے بھی براہِ راست دہشت گرد گروہوں میں شامل ہیں۔
مبصرین کے مطابق بی وائے سی نہ تو کوئی آئینی ادارہ ہے اور نہ ہی اس کی قانونی حیثیت موجود ہے۔ اس کے باوجود یہ تنظیم بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر اور سی پیک کے خلاف مسلسل مہم چلا رہی ہے۔ ان کے جلسوں اور احتجاجی کیمپوں میں بی ایل اے کے کارکنان کے شامل ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ماہرنگ بلوچ نے بیرونِ ملک، خصوصاً ناروے کے دورے کے دوران فنڈنگ حاصل کی تاکہ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو تقویت دی جا سکے۔ اسی تناظر میں ان کے جلسوں میں پیش کیے جانے والے ’’لاپتہ افراد‘‘ میں سے کئی بعد میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے خودکش حملہ آوروں کے طور پر سامنے آئے۔
یہ تمام حقائق اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ماہرنگ بلوچ محض انسانی حقوق کی کارکن نہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کے بیانیے کو مضبوط کرنے والی ایک سہولت کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بلوچستان کے امن اور ترقی کے لیے سنگین خطرہ سمجھی جا رہی ہیں۔
دیکھیں: بلوچستان میں بی این پی کے جلسے کے باہر دھماکہ، 13 افراد جاں بحق