افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ امارتِ اسلامیہ کی پالیسی کے مطابق افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ متقی کے مطابق “امارت خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حق رکھتی ہے” اور یہ قومی سلامتی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔
افغانستان کے سرحدی و داخلی چیلنجز کے تناظر میں وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں منعقدہ علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجتماع میں پیش کیا گیا پانچ نکاتی فتویٰ اور لائحۂ عمل پورے ملک کے لیے ایک مضبوط اور جامع منشور ہے۔
کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اعادہ کیا کہ امارتِ اسلامیہ کی پالیسی کے مطابق افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، اور "امارت خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حق رکھتی ہے۔"
— HTN Urdu (@htnurdu) December 11, 2025
اگرچہ کابل کی طرف سے اس… pic.twitter.com/gDAcP6mEfQ
اگرچہ کابل کی جانب سے اس اعلان کو سفارتی اور سیاسی اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، مبصرین کے مطابق اس بیان میں کوئی نیا عزم شامل نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہی یقین دہانیاں ہیں جو پہلے ہی دوحہ فریم ورک اور مختلف سفارتی نشستوں میں بارہا دہرائی جا چکی ہیں۔
خدشات برقرار: ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور داعش کی موجودگی پر خطے کی تشویش
دوسری جانب ٹی ٹی پی، بی ایل اے سے منسلک سیلز، داعش کی نقل و حرکت، اور اقوامِ متحدہ سے نامزد دیگر دہشت گرد عناصر کی افغانستان میں سرگرمیاں خطے کے ممالک کے لیے بدستور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ سیکیورٹی ادارے اس صورتحال کو علاقائی استحکام کے لیے مستقل خطرہ قرار دیتے ہیں۔
سفارتی تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ امارتِ اسلامیہ بارہا اس پالیسی کا اعلان کرتی رہی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر اس اعلان کی اصل کامیابی کا انحصار زمینی حقائق، مؤثر نفاذ اور عملی کارروائیوں پر ہوگا۔
سیاسی پیغام یا حقیقی تبدیلی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ بیان کو پالیسی میں نئی تبدیلی کے بجائے ایک سیاسی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو کہ افغانستان کی علاقائی سفارت کاری اور بین الاقوامی سطح پر درکار اعتماد سازی کے تناظر میں دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، “تحریری یا زبانی یقین دہانیاں اُس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتیں جب تک ان کے عملی اثرات سامنے نہ آئیں۔”