تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سرحدی سیاست سے آگے بڑھ کر تہذیبی اور تزویراتی پیچیدگیوں سے جڑے رہے ہیں۔ 1803 اور 1920 کے دوران جب برصغیر کے مسلمان افغان سرزمین سے گزرنے کے خواہشمند تھے، انہیں راستہ دینے سے انکار کیا گیا۔ مگر وقت کے ساتھ حالات پلٹے اور وہی سرحدیں جنہوں نے دروازے بند کیے تھے، آج لاکھوں افغان شہریوں کو پناہ دے رہی ہیں۔ پاکستان نے مسلمان افغان بھایئوں کیلئے وہ دروازے کھولے جنہیں تاریخ نے ہمیشہ بند دیکھا تھا۔ لیکن موجودہ منظرنامے میں یہی سخاوت اکثر بدظنی یا شاید ”تاریخی غلطی” کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
گزشتہ پچاس برسوں میں تقریباً پچپن لاکھ افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے، جن میں سے اکثر نے یہاں مستقل سکونت، روزگار، تعلیم اور تحفظ حاصل کیا۔ یہ اعداد افغانستان کی کل آبادی کا تقریباً 13.75 فیصد بنتے ہیں، جو کسی بھی ملک کے لیے غیر معمولی سماجی اور معاشی دباؤ ہے۔ پاکستان میں اس وقت اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 1.7 ملین رجسٹرڈ اور تقریباً 1.3 ملین غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین مقیم ہیں۔ ان کے قیام، تعلیم، صحت اور روزگار پر پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں 30 ارب ڈالر سے زائد کا بوجھ تنہا برداشت کیا، جب کہ بین الاقوامی امداد اس اخراجات کا صرف محدود حصہ پوری کر سکی۔
تعلیم کے میدان میں پاکستان کا کردار نمایاں رہا۔ 1979 سے اب تک پچاس ہزار سے زائد افغان طلبہ پاکستانی جامعات سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، جو دنیا کا سب سے بڑا افغان ایلومنائی نیٹ ورک ہے۔ مزید پندرہ ہزار افغان طلبہ نے پاکستانی مدارس میں دینی تعلیم مکمل کی۔ 2021 سے 2023 کے درمیان پاکستان نے افغان طلبہ کے لیے چھ سو سے زائد مکمل اسکالرشپ فراہم کیں۔ کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال بلاک کی تعمیر اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی منصوبے اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان نے افغان سماج کی فکری اور تعلیمی ترقی کو ہمیشہ ترجیح دی۔ یہ اقدامات خیرات نہیں بلکہ ایک مربوط علاقائی حکمتِ عملی کا حصہ تھے، جس کا مقصد دو طرفہ استحکام پیدا کرنا تھا۔
طبی میدان میں بھی پاکستان کا کردار قابلِ ذکر ہے۔ اسلام آباد نے افغانستان میں تین بڑے اسپتال تعمیر کیے، جن میں دشتِ برچی اسپتال کابل، ننگرہار ٹیچنگ اسپتال اور لوگر ریجنل اسپتال شامل ہیں۔ ان مراکز نے ہزاروں افغان شہریوں کو مفت علاج فراہم کیا۔ 2021 سے 2024 کے دوران پاکستان نے پانچ سو میٹرک ٹن ادویات، دو سو میٹرک ٹن غذائی امداد اور طبی آلات افغانستان بھجوائے۔ یہ امداد کسی سیاسی مفاد کے تحت نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر دی گئی۔
اس سب کے باوجود افغان قیادت پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور دیگر عہدیدار بارہا دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان داخلی مسائل پیدا کر رہا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی 2023 کی رپورٹ اس کے برعکس تصویر پیش کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 سے 2023 کے دوران تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں 110 فیصد اضافہ ہوا، جو 573 سے بڑھ کر 1203 ہو گئے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے ٹی ٹی پی رہنماؤں کو محفوظ ٹھکانے، سفری اجازت نامے اور اسلحہ لائسنس فراہم کیے۔ پاکستان میں 2021 سے اب تک 1200 سے زائد سیکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ اب بھی سرحد پار موجود ہے۔
افغان حکومت کی پالیسی میں تضاد نمایاں ہے۔ کابل ایک جانب عالمی فورمز پر خودمختاری اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب خواتین کی تعلیم اور روزگار پر مکمل پابندی برقرار ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین کو ثانوی تعلیم اور سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ کابل حکومت نے مہاجرین کے مسئلے کو سفارتی ہتھیار میں بدل دیا ہے، اور انسانی بحران کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
پاکستان کی پالیسی اس حوالے سے واضح ہے۔ ریاست پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت، خودمختاری اور داخلی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ پاکستان کا اختلاف افغان عوام سے نہیں بلکہ ان قوتوں سے ہے جو اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالتی ہیں۔ اسلام آباد کی ترجیح ایک ذمہ دار، مستحکم اور بااعتماد افغانستان ہے جو دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی ہمسایگی صرف سرحدیں بانٹنے کا نام نہیں بلکہ بوجھ اور ذمہ داری بانٹنے کا عمل ہے۔ پاکستان نے پچاس برسوں تک افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے، تعلیم دی، صحت دی، پناہ دی، مگر اب وقت ہے کہ کابل بھی اسی خلوص کے ساتھ اعتماد، شکرگزاری اور عملی تعاون کا مظاہرہ کرے۔ امن کے لیے وعدے کافی نہیں، اقدامات ضروری ہیں۔ اگر افغانستان نے تعاون کے بجائے تصادم کا راستہ اختیار کیا تو اس کے اثرات کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔