اسلام آباد اور کابل کے درمیان استنبول میں جاری مذاکرات ایک نازک موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان نے افغان وفد کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی ہی کسی بھی تعاون کی بنیاد ہوگی، اور کسی بھی کالعدم گروہ کے ساتھ مذاکرات قبول نہیں کیے جائیں گے۔
استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان وفد کی قیادت حاجی نجیب حقانی نے کی، جو افغان انٹیلی جنس (جی ڈی آئی) کے سینئر رکن اور سراج الدین حقانی کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ وفد میں سہیل شاہین، انس حقانی اور افغان وزارتِ خارجہ و دفاع کے نمائندے بھی شامل تھے۔ کندهاری قیادت نے اس بار نسبتاً مختصر وفد تشکیل دیا، جس میں جی ڈی آئی کے سربراہ عبدالحَق وسیق شامل نہیں تھے۔
ذرائع کے مطابق، افغان فریق نے تجویز دی کہ ٹی ٹی پی نمائندوں کو مذاکرات میں شامل کیا جائے تاکہ “مسائل کے حل میں مدد مل سکے۔” تاہم پاکستانی وفد نے اس تجویز کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ سے براہِ راست بات نہیں کرے گا۔
ایک سینئر پاکستانی اہلکار کے مطابق، “بات صرف ریاستوں کے درمیان ہوگی۔ افغان حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو وہ عملی اور قابلِ تصدیق کارروائی کرے۔ ہم کسی قیمت پر اپنی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”
ذرائع کے مطابق، پہلے اجلاس کے بعد انس حقانی نے کابل سے رابطہ کر کے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد طالبان وفد نے ایک اور نشست کی درخواست کی۔ یہ مذاکرات قطر اور ترکیہ کی مشترکہ میزبانی میں جاری ہیں اور مبصرین کے مطابق یہ کابل کی سنجیدگی کا اہم امتحان ہے۔
دوسری جانب، پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے اسی دوران نئی سرحد پار دراندازی کی کوششوں کی اطلاع دی ہے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، 24 اور 25 اکتوبر کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے کرم اور شمالی وزیرستان کے علاقوں میں افغان سرزمین سے داخل ہونے والے دو بڑے دہشت گرد گروہوں کو روکا۔ کارروائی میں 25 حملہ آور ہلاک ہوئے، جن میں چار خودکش بمبار بھی شامل تھے۔
آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا کہ “یہ واقعات ایسے وقت میں پیش آئے جب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے وفود مذاکرات میں مصروف ہیں، جو افغان حکومت کے عزائم پر سوال اٹھاتے ہیں۔”
یہ مذاکرات دوحہ میں 18 اکتوبر کو ہونے والے پہلے دور کا تسلسل ہیں، جہاں پاکستان نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ اگر افغانستان نے تعاون نہ کیا تو صورتحال کھلی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ “ہندوستان افغانستان کے راستے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، لیکن پاکستان نے اس کا جواب دینے کی پوری صلاحیت حاصل کر لی ہے۔”
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کا ٹی ٹی پی کو مذاکرات میں شامل کرنے کا اصرار دراصل اس گروہ کو بین الاقوامی سطح پر سیاسی حیثیت دلانے کی کوشش ہے، جسے پاکستان کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا۔
پاکستانی مؤقف اب پہلے سے زیادہ سخت اور واضح ہے: افغان حکومت اگر اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے خلاف عملی اقدامات کر کے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک ذمہ دار ریاست ہے، نہ کہ ایک نیٹ ورک جو پراکسی گروہوں کو تحفظ دیتا ہے۔
استنبول کے مذاکرات اب صرف ایک فیصلہ طے کریں گے — طالبان حکومت بطور ریاست برتاؤ کرے گی یا بطور گروہ۔ یہی فیصلہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا مستقبل طے کرے گا۔