پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتِ پاکستان کی مسلسل کوششوں کے تحت گزشتہ دس سالوں میں بلوچستان، فاٹا اور گلگت بلتستان کے طلبا و طالبات کے لیے 6,663 اسکالرشپس جاری کی گئیں۔ ان میں 6,437 اسکالرشپس اندرونِ ملک جبکہ 226 بیرونِ ملک تعلیم کے لیے کی گئیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے طلبا اس اسکیم کے سب سے زیادہ مستحقین ثابت ہوئے جنہیں اندرونِ ملک کل 3,884 اسکالرشپس دی گئیں۔ ان میں 2,793 انڈرگریجویٹ، 396 ایم فل، 99 ایم ایس اور 96 پی ایچ ڈی اسکالرشپس شامل ہیں۔
سابقہ قبائلی اضلاع (فاٹا) کے طلبا کے لیے 2,745 اندرونِ ملک اسکالرشپس آئیں، جن میں سے 2,327 انڈرگریجویٹ اور 418 ایم فل یا ایم ایس لیول کے لیے تھیں۔ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے 308 انڈرگریجویٹ اسکالرشپس مختص کی گئیں۔
بیرونِ ملک تعلیم کے لیے بھی بلوچستان کے طلبا کو خصوصی مواقع دیے گئے، جہاں ایچ ای سی نے ان کے لیے 226 اسکالرشپس کا اہتمام کیا۔ ان میں 166 پی ایچ ڈی، 50 لینگویج کورسز اور 10 ایل ایل ایم اسکالرشپس شامل ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق یہ اقدامات حکومت کے اس عزمم کو مزید پختہ کرتی ہے کہ ملک کے پسماندہ خطوں کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسکالرشپس، بیرونِ ملک تعلیم کے پروگرامات اور صلاحیت نکھارنے کے منصوبے درحقیقت ایک وسیع تر قومی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد ان علاقوں کے طلبا میں تعلیم کا شوق پیدا کرنا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس سالوں میں اٹھائے گئے ان تعمیری اقدامات نے بلوچستان، سابق فاٹا اور گلگت بلتستان جیسے خطوں میں تعلیم کے فروغ میں نہ صرف تاریخی کردار ادا کیا ہے بلکہ انسانی سرمائے کی تشکیل، علاقائی شمولیت اور معاشی استحکام کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔
دیکھیں: خیبر پختونخوا کی سطح پر یتیم طلبا و طالبات کے لیے مفت تعلیم کا منصوبہ