افغان حکام نے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے کھولنے کے معاملے پر اپنا مؤقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور ٹرانزٹ کے راستوں کو ’’غیر قانونی‘‘ طور پر اور سیاسی دباؤ کے طور پر بند کیا، جس سے دونوں ممالک کے عوام کو نقصان پہنچا۔
امارتِ اسلامی افغانستان کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اپنی ضروریات کئی ممالک سے پوری کر رہا ہے، اس لیے اب پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے اسی وقت دوبارہ کھولے جائیں گے جب اسلام آباد سے اس بات کی ’’مضبوط یقین دہانی‘‘ مل جائے کہ مستقبل میں یہ راستے سیاسی دباؤ، غیر قانونی پابندی یا کسی بھی قسم کے دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
امارت اسلامی افغانستان بار دیگر موقف خود را در مورد گشایش راههای تجارتی با پاکستان تکرار مینماید.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) December 4, 2025
چنانچه راههای تجارت و ترانزیت میان افغانستان و پاکستان از سوی پاکستان بهصورت غیرقانونی و بهگونه وسیلهٔ فشار سیاسی و اقتصادی مسدود گردیده بود،
۳/۱
افغان بیان کے مطابق راستوں کی بندش سے تاجروں کے حقوق کو نقصان پہنچا اور ’’باوقار تجارت‘‘ متاثر ہوئی۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی پالیسی درکار ہے جو دونوں جانب کے تاجروں اور عوام کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرحدی اور تجارتی گزرگاہوں کے حوالے سے پاکستان کے فیصلے ’’قومی سلامتی اور قانونی ضابطوں‘‘ کے مطابق ہوتے ہیں، اور یہ کہنا درست نہیں کہ راستے کسی سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیے گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان نے متعدد بار افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی سرزمین دہشت گرد گروہوں خصوصاً ٹی ٹی پی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ حکام کے مطابق سرحدی بندشیں تب کی گئیں جب دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے بڑھتے واقعات کے سبب اضافی حفاظتی اقدامات ضروری ہوئے۔
پاکستانی مؤقف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجارت کی بحالی کے لیے افغان حکومت کو ’’اعتماد سازی کے مؤثر اقدامات‘‘ یقینی بنانا ہوں گے تاکہ دونوں ممالک کے عوام اور تاجروں کی حفاظت اور مفادات محفوظ رہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان علاقائی تجارت کے فروغ کا خواہاں ہے لیکن ’’قابل اعتماد سیکورٹی تعاون‘‘ کو بنیادی شرط قرار دیتا ہے۔