پشاور میں خیبرپختونخوا اسمبلی کی زیرِ صدارت ہونے والے “امن جرگہ” کا تفصیلی اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے، جس میں صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، بدامنی اور بین الصوبائی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام گزشتہ دو دہائیوں سے جنگ، شدت پسندی اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان برداشت کر چکے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی قوتیں مل کر پائیدار امن کے لیے متحد ہوں۔
اعلامیے میں دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کو اسمبلی کو اعتماد میں لے کر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے چاہئیں تاکہ صوبے میں امن و امان کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اجلاس میں متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسمبلی میں منظور شدہ تمام امن و امان سے متعلق قراردادوں پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔
اعلامیے کے مطابق، پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو داخلی سلامتی کی قیادت سونپی جائے گی، جبکہ انہیں ضرورت کے مطابق دیگر آئینی اداروں سے معاونت حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ صوبائی حکومت پولیس اور سی ٹی ڈی کو موجودہ نازک صورتحال کے پیش نظر خصوصی مالی معاونت فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھتہ خوری اور غیر قانونی محصولات کے خاتمے کے لیے ایک جامع پالیسی تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیر قانونی نکاسی کا خاتمہ کیا جائے، جبکہ صوبے میں جاری سیکیورٹی آپریشنز اور ان کی قانونی بنیادوں کے بارے میں اسمبلی کو مقررہ مدت میں اِن کیمرا بریفنگ دی جائے۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر امن کے ایسے فورمز قائم کیے جائیں گے جن میں اکثریت غیر سرکاری اراکین پر مشتمل ہوگی، تاکہ سماجی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ شہری سطح پر پولیس، کنٹونمنٹ بورڈز اور بلدیاتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے اور چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے واضح منصوبہ بندی کی جائے۔ مزید برآں، مقامی حکومتوں کے استحکام اور مالی خودمختاری کے لیے آئینی ترمیم کی تجویز پیش کی گئی۔
مالی امور سے متعلق اعلامیے میں کہا گیا کہ صوبائی فنانس کمیشن کو قومی فنانس کمیشن سے براہِ راست منسلک کیا جائے تاکہ خیبرپختونخوا کو اپنے مالی حقوق حاصل ہو سکیں، جن میں، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، پانی اور گیس کے حصے، اور انضمام شدہ اضلاع کی آبادی کے مطابق فنڈز شامل ہیں۔
مزید برآں، اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت صوبائی ایکشن پلان برائے امن تشکیل دے۔ پاک افغان سرحد کو تاریخی تجارتی راستوں کے ذریعے فی الفور تجارت کے لیے کھولنے اور پاک افغان پالیسی میں وفاق کو صوبائی حکومت سے مشاورت کرنے پر بھی زور دیا گیا۔
اعلامیے کے آخری نکات میں تجویز دی گئی کہ وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان تناؤ کم کیا جائے اور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آئینی مدت کے مطابق باقاعدگی سے بلایا جائے تاکہ قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
سہیل آفریدی کا بیان
وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے جرگے کے بعد ایچ ٹی این سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ “تمام جماعتوں اور مکاتبِ فکر کو مل کر امن کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ ہم تمام سفارشات پر عمل درآمد میں کامیاب ہوں گے۔”
تمام جماعتوں اور مکاتب فکر کو مل کر امن کیلئے کام کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ ہم تمام سفارشات پر عمل کرنے میں کامیاب ہوں گے؛ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی امن جرگہ کے بعد ایچ ٹی این اردو سے خصوصی گفتگو!!@SohailAfridiISF @FidaAdeel1 pic.twitter.com/ve12kttQ95
— HTN Urdu (@htnurdu) November 12, 2025
پی ٹی ایم کا بائیکاٹ اور تنقید
امن جرگے کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اراکین نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور واک آؤٹ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں پہلی بار کسی سرکاری جرگے میں شرکت کا موقع دیا گیا لیکن تقریر کا حق نہیں دیا گیا۔ رہنما نوراللہ ترین اور حنیف پشتین نے الزام لگایا کہ “یہ وزیر اعلیٰ یا عوام کا جرگہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا ہے۔”
خیبرپختونخوا اسمبلی میں جاری امن جرگہ کی ابتدا میں قومی ترانہ چلایا گیا جس کے احترام میں تمام ممبران اور موجود لوگ کھڑے ہوئے تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین غیر رسمی طور پر بیٹھے رہے۔
— HTN Urdu (@htnurdu) November 12, 2025
ماہرین نے اس عمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ پی ٹی ایم کے نظریے اور افغانستان… pic.twitter.com/BWvUdi6E4Y
اس سے قبل قومی ترانے کے دوران پی ٹی ایم اراکین کے بیٹھے رہنے پر دیگر اراکین نے شدید تنقید کی تھی۔