درحقیقت قائداعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہوگا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے بارہا یہ کہا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگا۔ یہ بات انہوں نے سنتالیس میں پاکستان بننے سے چند ماہ بھی کہی اور اس سے کئی سال پہلے بھی بارہا یہ کہتے رہے۔ حتیٰ کہ گیارہ اگست سنتالیس والی تقریر کے چند دن بعد سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں بھی قائداعظم نے اپنی تقریر میں یہی باتیں کہیں۔

December 25, 2025

آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والا خارجی دلاؤر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا اور اس کے سر کی قیمت 40 لاکھ روپے مقرر تھی۔ وہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل سمیت متعدد دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث رہا۔

December 25, 2025

تقریب میں او آئی سی کابل مشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد سعید العیّاش اور دفترِ امورِ جیل خانہ جات کے ڈائریکٹر جنرل مولوی محمد یوسف شریک ہوئے

December 25, 2025

عدالتی درخواست کے مطابق شو کے تیسرے سیزن میں بالی ووڈ کے تین گانے بغیر اجازت استعمال کیے گئے۔ ان میں فلم منّا بھائی ایم بی بی ایس کا گانا ایم بولے تو، فلم کانٹے کا راما رے اور فلم دیسی بوائز کا صبح ہونے نہ دے شامل ہیں۔ یہ اقساط جون سے ستمبر کے درمیان نیٹ فلکس پر نشر ہوئیں

December 25, 2025

تاجک نیوز ایجنسی نے بھی جھڑپ کی تصدیق کردی ہے ، جھرپ کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانے سے بھاری مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے ، جس میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں چھوڑی گئی ایم4رائفلز اور گرنیڈ بھی شامل ہیں۔

December 25, 2025

قائداعظمؒ کو اس حقیقت کا احساس تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی آزادی جیسے مقدس فریضہ کیلئیے منتخب کیا ہے اس کا اظہار 17 اپریل 1948 کو گورنر ہاؤس پشاورمین جرگے سے خطاب میں کیا آپ نے فرمایا’’میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے کیا اور اپنی قوم کی آزادی میں اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن مددکی‘‘

December 25, 2025

قائداعظم: متھ، مفروضے اور حقائق

درحقیقت قائداعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہوگا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے بارہا یہ کہا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگا۔ یہ بات انہوں نے سنتالیس میں پاکستان بننے سے چند ماہ بھی کہی اور اس سے کئی سال پہلے بھی بارہا یہ کہتے رہے۔ حتیٰ کہ گیارہ اگست سنتالیس والی تقریر کے چند دن بعد سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں بھی قائداعظم نے اپنی تقریر میں یہی باتیں کہیں۔
قائداعظم: متھ، مفروضے اور حقائق

قائداعظم علامہ اقبال کے زبردست مداح اور دوست تھے ، مگر جب علامہ مرحوم کے بڑے صاحبزادے آفتاب اقبال نے انہیں خط لکھ کر مسلم لیگ کی ٹکٹ کی درخواست دی تو قائد نے صاف لکھ بھیجا کہ آپ اس سلسلہ میں مسلم لیگ کے مقرر کردہ طریقہ کار کی پیروی کریں۔

December 25, 2025

پچیس دسمبر قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے۔ ہم نے جس طرح علامہ اقبال کو نصاب کا شاعر بنا کر ایک سائیڈ پر کر دیا ہے، اسی طرح ہم قائداعظم کی قدآور شخصیت کا احترام تو کرتے ہیں، مگر ان کے افکار اور خیالات پر اس طرح غور نہیں کرتے۔

اس کی بہت ضرورت ہے کہ ہم قائد کی شخصیت، ان کی سوچ اور آرا کو اپنے آج کے تناظر میں دیکھیں۔ یہ بھی تجزیہ کریں کہ ہمارے آج کل کے سیاستدان کس حد تک قائداعظم کی فکر اور طرز سیاست کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو غلط مفروضے قائد کے بارے میں پھیلائے گئے ہیں، ان کا بھی ابطال کرنا چاہیے۔ ذیل میں ایسے چند نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔


پاکستانی جمہوریت بمقابلہ ہندوستانی جمہوریت


ہمارے ہاں ایک حلقہ ہمیشہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بعض پیش گوئیوں کا ذکر کرتا ہےجن میں پاکستان کے حوالے سے بھی ان کی بعض آرا شامل ہیں۔ یہ لوگ مولانا آزاد کو گلوریفائی کرتے ہیں۔ مولانا آزاد ایک عالم اور سکالر کے طور پر قابل احترام ہیں، مگر بہرحال سیاسی طور پر ان کی فکر می نہ صرف نقائص تھے بلکہ وہ کانگریس کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ مولانا آزاد نے پاکستان کے بارے میں کیا پیش گوئیاں کرنا تھیں، انہیں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بھی اندازہ نہیں ہوسکا۔ کانگریس ، گاندھی ، نہرو اور سردار پٹیل وغیرہ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم میں جو ان کی موت کے تیس سال بعد شائع ہوئی، اس میں مولانا آزاد مسلسل نہرو سے شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔


اس کے برعکس قائداعظم جو بنیادی طور پر کوئی عالم یا بڑے سکالر نہیں تھے، وہ ایک اعلیٰ درجے کے وکیل اور غیر معمولی فراست والے سیاستدان تھے۔قائداعظم کی بھارتی جمہوریت اور وہاں کی ہندو قیادت کے بارے میں جو ریڈنگ تھی، وہ حیران کن حد تک درست نکلی۔ سچ تو یہ ہے کہ قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل کی ہندو لیڈرشپ اور انٹیلی جنشیا کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی، آج کا ہندوستان بالکل بعینہ اسی طرز پر پہنچ چکا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قائداعظم کوئی صاحب کشف بزرگ تھے، جنہوں نے آنے والے حالات کا درست تجزیہ کر لیا۔ ظاہر ہے یہ ان کی سیاسی فراست ہی تھی۔


قائداعظم نے انیس سو ترتالیس (1943)میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے صدارتی خطبہ میں فرمایا،” جمہوریت سے کانگریس کی مراد ہندو راج ہے تاکہ مسلمانوں پر غالب آیا جائے جو کہ ایک بالکل مختلف قوم ہیں ،ثقافت میں اور ہر چیز میں مختلف ہیں۔ کانگریس صرف ہندوقوم پرستی اور ہندو راج کے لئے کام کر رہی ہے ۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی۔ جمہوریت ہمارے خون میں ہے جبکہ جمہوریت ہندو معاشرے سے اتنا ہی دور ہے جتنا قطب شمالی۔ آپ میں سے تو ایک زات کا ہندو دوسری زات کے ہندو سے پانی تک نہیں پیتا۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی دیانت داری ہے ؟ہم جمہوریت کے حق میں ہیں، مگر ایسی جمہوریت کے حق میں نہیں جو پورے ملک کو گاندھی جی کے آشرم میں تبدیل کر دے۔ ایک ایسے معاشرے اور ایسی قوم میں تبدیل کر دے جس میں ایک مستقل اکثریت ایک مستقل اقلیت میں رہنے والی دوسری قوم کو تباہ یا اقلیت کو عزیز ہر شے کو برباد کر کے رکھ دے۔ “


قائدعظم کا بیاسی سال قبل پرانا یہ خطاب پڑھ کر آج کے بھارت کو دیکھیں تو بالکل یہی منظرنامہ نظر آئے گا۔ شدت پسند ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کو تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہے اور مسلمانوں کو عزیز ہر شے کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟

قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے ؟

یہ وہ متھ یا غلط مفروضہ ہے جو ہمارے کئی سیکولر دانشوروں اور اہل علم نے پھیلایا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد سے لے کر پرویز ہود بھائی اور جسٹس منیر سے لے کر آج کے کئی سیکولر ، لبرل لکھاریوں تک سب یہی راگ الاپتے ملتے ہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس لئے کہ قائداعظم سیکولرازم کی اصطلاح سے اچھی طرح واقف تھے، انہوں نے مگر کبھی یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ سنتالیس سے پہلے اور نہ بعد میں اپنی وفات تک ۔ قائداعظم کا کہا اور لکھا ہر لفظ ریکارڈ پر ہے۔ مگر سیکولرازم کی اصطلاح اور یہ لفظ وہ کبھی استعمال کرتے نہیں ملیں گے۔


درحقیقت قائداعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہوگا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے بارہا یہ کہا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگا۔ یہ بات انہوں نے سنتالیس میں پاکستان بننے سے چند ماہ بھی کہی اور اس سے کئی سال پہلے بھی بارہا یہ کہتے رہے۔ حتیٰ کہ گیارہ اگست سنتالیس والی تقریر کے چند دن بعد سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں بھی قائداعظم نے اپنی تقریر میں یہی باتیں کہیں۔ یہ تک کہا کہ ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا نظام پیش کرنا چاہیے جو انسانوں کی مساوات اور سماجی انصاف کے سچے اسلامی نظریے پر مبنی ہو۔

ویسے بھی کامن سینس کی بات ہے کہ دنیا کا کوئی بھی سیاستدان یا لیڈر ہو اس کی آرا یا سوچ کو اس کی مجموعی فکر کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے نہ کہ صرف ایک تقریر کے ٹکڑے کو نمائندہ مان لیا جاتا ہے ۔ قائداعظم تو ایک بااصول سیاستدان تھے اور انہوں نے عوام سے جس سلوگن اور نعروں پر عوامی مینڈیٹ لیا، وہ ان سے انحراف کیسے کر سکتے تھے ؟

کیا قائداعظم نے کبھی نظریہ پاکستان کا لفظ استعمال نہیں کیا؟

ہمارے بہت سے سیکولر ، لبرل دانشور ، لکھاری یہ بات بڑے دھڑلے سے کہہ دیتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کی اصطلاح قائداعظم نے کبھی استعمال نہیں کی اور یہ تو جماعت اسلامی کے لوگوں کی وضع کردہ ہے اور ستر کے عشرے میں یہ معروف ہوئی، جنرل ضیا کے قریبی جنرل مجیب الرحمن نے اسے برتا اور پھیلایا وغیرہ وغیرہ۔ جسٹس منیر بھی یہ بے بنیاد مفروضہ پھیلانے والوں میں سے ایک ہے۔ یہ دراصل کم علمی اور حقائق کو نہ جاننے کی وجہ سے ہوا۔


حقیقت یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کے حوالے انیس سو سنتالیس سے پہلے بھی موجود تھے۔ برطانیہ میں مقیم مصنفہ سلینا کریم نے قائداعظم پر لکھی اپنی شاندار تحقیقی کتاب میں کئی حوالے نقل کئے ہیں۔ “علامہ اقبال کی تقاریر اور بیانات” نامی کتاب کے مولف لطیف احمد شیروانی نے اپنی کتاب کے دیباچے میں ایک جملہ لکھا، “جہاں تک نظریہ پاکستان کا تعلق ہے ، علامہ اقبال کے نظریے اور مسلم لیگ کی پالیسی میں کوئی ٹکرائو نہیں۔” یہ کتاب انیس سو چوالیس میں شائع ہوئی، یعنی پاکستان بننے سے تین سال قبل ۔ یہ ایک معروف کتاب ہے اور یہ مسلم لیگی حلقے میں پڑھی اور زیربحث بھی رہی۔


قیام پاکستان کے وقت انگریز فوج کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل اکنلیک کے سیکرٹری کرنل سید شاہد حامد نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ بٹوارے یعنی چودہ اگست سنتالیس سے دو ہفتے قبل نیو دہلی میں فیلڈ مارشل اکنلیک کے گھر ایک دعوت ہوئی جس میں قائداعظم بھی شریک ہوئے۔ کرنل شاہد حامد کی ڈآئری کے مطابق “تقریب میں انہوں نے ( قائدعظم نے) سر سید احمد خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو قومی نظریہ کے بانی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نظریہ پاکستان کا تحفظ ضروری ہے۔ “


ایف کے خان درانی کی کتاب “مِیننگ آف پاکستان” میں نظریہ پاکستان کی اصطلاح استعمال کی گئی اور ایف کے درانی کے مطابق نظریہ پاکستان سے مراد وہی تصور ہے جو علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں ادا کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ کتاب بھی قیام پاکستان سے تین سال قبل انیس سو چوالیس میں شائع ہوئی ۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح نے انیس سو چون میں ایک تقریر میں نظریہ پاکستان کا ذکر کیا بلکہ اس کے بعد ایک اور تقریر میں باقاعدہ نظریہ پاکستان کی تعریف بھی بیان کی، مادر ملت کے مطابق، “اسلامی نظریے کا مطلب جمہوریت، بھائی چارہ، سچائی اور انصاف کا بول بالا ہے اور یہ اوصاف اسلام کے ستون ہیں۔ “


اس لئے یہ کہنا ایک بودی اور بے بنیاد بات ہے کہ نظریہ پاکستان کوئی اصطلاح نہیں اور یہ صرف رائٹسٹوں نے پھیلائی ہے ۔ درحقیقت یہ پاکستان کا مرکزی تصور ہے اور قائداعظم اور مسلم لیگ کے بنیادی نظریے کا حصہ بھی رہا ۔


سماجی انصاف پر زور اور موروثیت کی نفی


قائداعظم کی شخصیت میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن پر ہمارے آج کے سیاستدانوں کو سیکھنا اور عمل کرنا چاہیے، ان میں سے دو بہت اہم ہیں۔ سماجی انصاف پر زور اور موروثیت اور اقرباپروری کی نفی۔


قائداعظم نے اسلام کے سماجی انصاف پر بہت زور دیا اور ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ پاکستان میں سماجی انصاف اور مساوات ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ امیر اور زیادہ امیر ہوجائے اور چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز ہوبلکہ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عوام الناس کا معیار زندگی بہتر اور یکساں ہو۔


جہاں تک موروثیت اور اقربا پروری کی نفی کا تعلق ہے، اس حوالے سے قائداعظم بہت ہی کلیئر رہے۔ انہوں نے نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو مسلم لیگ خواتین میں ذمہ داری دینے کے بجائے سر عبداللہ ہارون کی اہلیہ لیڈی ہارون کو سربراہ مقرر کیا۔ قائداعظم نے سر سید احمد خان کے لئے بہت احترام کے باوجود ان کے پڑپوتے کے حق میں سفارشی خط لکھنے سے انکار کر دیا کہ ہر ایک کو میرٹ پر ہی ملازمت ملنی چاہیے۔

قائداعظم علامہ اقبال کے زبردست مداح اور دوست تھے ، مگر جب علامہ مرحوم کے بڑے صاحبزادے آفتاب اقبال نے انہیں خط لکھ کر مسلم لیگ کی ٹکٹ کی درخواست دی تو قائد نے صاف لکھ بھیجا کہ آپ اس سلسلہ میں مسلم لیگ کے مقرر کردہ طریقہ کار کی پیروی کریں۔ یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آج کل جس طرح ہماری سیاسی جماعتیں خانوادوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور سیاسی قائدین کی اولاد کو پوری پارٹی ورثے میں مل جاتی ہے، یہ روش قائداعظم کو سخت ناگوار گزرتی۔


کاش ہم پاکستانی قائداعظم کی شخصیت، ان کے افکار کا غیر جانبداری سے، کسی تعصب سے ہٹ کر مطالعہ کریں اور اس سے استفادہ کریں۔

متعلقہ مضامین

آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والا خارجی دلاؤر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا اور اس کے سر کی قیمت 40 لاکھ روپے مقرر تھی۔ وہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل سمیت متعدد دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث رہا۔

December 25, 2025

تقریب میں او آئی سی کابل مشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد سعید العیّاش اور دفترِ امورِ جیل خانہ جات کے ڈائریکٹر جنرل مولوی محمد یوسف شریک ہوئے

December 25, 2025

عدالتی درخواست کے مطابق شو کے تیسرے سیزن میں بالی ووڈ کے تین گانے بغیر اجازت استعمال کیے گئے۔ ان میں فلم منّا بھائی ایم بی بی ایس کا گانا ایم بولے تو، فلم کانٹے کا راما رے اور فلم دیسی بوائز کا صبح ہونے نہ دے شامل ہیں۔ یہ اقساط جون سے ستمبر کے درمیان نیٹ فلکس پر نشر ہوئیں

December 25, 2025

تاجک نیوز ایجنسی نے بھی جھڑپ کی تصدیق کردی ہے ، جھرپ کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانے سے بھاری مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے ، جس میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں چھوڑی گئی ایم4رائفلز اور گرنیڈ بھی شامل ہیں۔

December 25, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *