روسی حکومت کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے پر عالمی سطح پر ملے جلے ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ جہاں ایک طرف وسطی و جنوبی ایشیاء میں توانائی کے نئے مواقع کی امید جگا رہا ہے، وہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تناؤ میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
چند روز قبل کابل میں روسی سفیر نے افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کو اپنی سفارتی اسناد پیش کیں جسے افغان حکومت نے “جرأت مندانہ اقدام” قرار دیا۔ روس وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے امارتِ اسلامی افغانستان کو باضابطہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا اور ماسکو میں افغان سفارت خانے کو بھی ان کے حوالے کیا۔
دوسری جانب چین نے اگرچہ افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، تاہم امارتِ اسلامی کو ایک عملی حکومت کے طور پر قبول کرتے ہوئے بیجنگ میں افغان سفیر کی اسناد منظور کیں اور ایران سے نکالے گئے افغان پناہ گزینوں کو سہولیات فراہم کیں۔
روسی اور چینی مفادات اور خطے کی حقیقت
روس جانتا ہے کہ دنیا کو بالآخر طالبان حکومت کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ ماسکو کو افغانستان کے ساتھ پُرامن سرحدیں درکار ہیں۔ امارتِ اسلامی کو داعش خراسان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور دیگر شدت پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے روس کی عسکری مدد کی ضرورت ہے، جبکہ چین کو بھی اپنے سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی درکار ہے۔
ماہرین کے مطابق توانائی کے بحران سے دوچار جنوبی ایشیا اور افغانستان کو نئے ذرائع درکار ہیں، اور روس کو یورپی مارکیٹ سے محرومی کے بعد گیس و تیل کی نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی۔
سیاسیات کے ممتاز استاد، پروفیسر مختیار نے ایچ ٹی این سے گفتگو میں کہا کہ
“روس کی یوکرین جنگ اور یورپی یونین سے کشیدگی کے بعد توانائی کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں، لہٰذا جنوبی ایشیا ایک متبادل منڈی بن سکتا ہے۔”
CASA-1000 اور توانائی کا مستقبل
روس کے اس اقدام کے بعد وسطی ایشیاء کو جنوبی ایشیاء سے جوڑنے والے منصوبے جیسے کاسا-1000 کو نئی امید مل سکتی ہے۔
یہ منصوبہ افغانستان اور پاکستان کی توانائی منڈیوں کو ریلیف فراہم کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی روس کی دیکھا دیکھی خلیجی ممالک اور دیگر پڑوسی ریاستیں بھی امارتِ اسلامی کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہیں۔
ممکنہ منفی اثرات اور امریکی ردعمل
روسی پرچم کے سائے میں امارتِ اسلامی کے لیے خطرات بھی موجود ہیں۔ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد بند ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ دباؤ میں آ کر دیگر ممالک بھی امداد روک دیں۔
مزید یہ کہ ایسے گروہ — جیسے شمالی اتحاد — دوبارہ متحرک ہو سکتے ہیں جنہیں امریکہ کے دباؤ پر عالمی حمایت حاصل نہ تھی مگر اب اُن کی پشت پناہی بڑھ سکتی ہے۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ روس نے ماضی میں امریکہ کے ساتھ طویل فاصلے کی جنگوں میں کامیابی حاصل نہیں کی — چاہے وہ شام ہو، یمن، ایران، ویتنام، یا پرانا افغانستان۔ اگر افغانستان میں دونوں عالمی طاقتیں دوبارہ آمنے سامنے آئیں تو اس کا نقصان صرف افغان عوام کو ہوگا۔
نتیجہ: حقیقت پسندی اور احتیاط کا وقت
روسی تسلیم کو امارتِ اسلامی کے لیے ایک سفارتی فتح ضرور قرار دیا جا سکتا ہےمگر اس کے سائے میں چیلنجز بھی چھپے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے درمیان افغانستان کو ایک بار پھر میدانِ جنگ بننے سے بچانا ہوگا۔ اس کے لیے مقامی حکمتِ عملی، عالمی توازن اور حقیقت پسندی ناگزیر ہیں۔