ایک اہم بین الاقوامی پیشرفت میں روس نے افغانستان کی اسلامی امارت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یہ اعلان کابل میں روسی سفیر دمتری ژرنوف اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات کے دوران سامنے آیا۔
افغان وزیر خارجہ نے اس فیصلے کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہوئے اسے “تاریخی سنگ میل” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے نئے دروازے کھولے گا۔
وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ ہم روسی فیڈریشن کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ ہم روس اور جنوبی ایشیا کو آپس میں جوڑنے کا کردار ادا کریں گے۔
روس کا یہ فیصلہ افغانستان کی بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوششوں میں ایک اہم موڑ ہے، خاص طور پر اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اگرچہ کئی مغربی حکومتیں طالبان حکومت سے باضابطہ تعلقات میں ہچکچاہٹ کا شکار رہیں تاہم روس نے اب سفارتی تعلقات کو رسمی شکل دینے کے لیے واضح قدم اٹھایا ہے۔
یہ اقدام قطعی طور پرغیرمتوقع نہیں تھا۔ 2021 سے ماسکو نے کابل میں سفارتی موجودگی برقرا رکھی اور طالبان حکام سے وقتاً فوقتاً مذاکرات کیے۔ روسی حکام نے ہمیشہ استحکام، علاقائی سلامتی، اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر زور دیا ہے۔ اب باضابطہ تسلیم کرنے سے ان سفارتی کوششوں میں مزید وسعت آنے کی توقع ہے۔
Just In | Russia has officially recognized Afghanistan’s Islamic Emirate
— HTN World (@htnworld) July 3, 2025
Russian Ambassador Dmitry Zhirnov informed Afghan Foreign Minister Amir Khan Muttaqi of the decision during their meeting in Kabul.
The Afghan minister welcomed the move, calling it a historic milestone… pic.twitter.com/ok54EQ0nqx
سفیر ژرنوف: ایک تجربہ کار سفارت کار
اس پیشرفت کے مرکز میں روس کے خصوصی سفیر دمتری آ ژرنوف ہیں۔ 1977 میں پیدا ہونے والے ژرنوف نے 2000 میں ماسکو اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز سے گریجویشن کیا اور روسی وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی۔
دو ہزار سولہ سے 2019 تک وہ واشنگٹن ڈی سی میں روسی سفارت خانے میں وزیراورمشیر کے طور پر تعینات رہے، جو امریکہ اور روس کے تعلقات میں ایک کشیدہ دور تھا۔ ان کی مہارت اور تجربے کی بنا پر 29 اپریل 2020 کو صدر ولادیمیر پیوٹن نے انہیں افغانستان کے لیے سفیر مقرر کیا۔
ژرنوف کے پاس سیاسیات میں پی ایچ ڈی ہے اور وہ انگریزی اور چینی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ 2017 میں انہیں انوائے ایکسٹرا آرڈنری اور منسٹر پلین پوٹینٹری (دوسری کلاس) کا عہدہ دیا گیا۔ وہ شادی شدہ ہیں اور وسطی ایشیا میں روس کی خارجہ پالیسی کے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
وسیع تر اثرات
یہ اقدام کابل اور ماسکو سے آگے بھی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ روس کا تسلیم کرنا چین، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو افغانستان سے تعلقات گہرا کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ اس سے مغربی ممالک پر بھی دباؤ پڑ سکتا ہے کہ وہ اپنی سفارتی پالیسی پر نظرثانی کریں۔
روس کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسلامی امارت پابندیوں، منجمد اثاثوں اور بین الاقوامی سطح پر عدم شناخت جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ انسانی حقوق خصوصاً خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کے باعث اسے شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔ اس کے باوجود ماسکو کا فوکس خطے میں استحکام اور داعش خراسان جیسے شدت پسند گروپوں کے اثر کو محدود رکھنے پر ہے۔
آگے کیا ہوگا؟
اب اس اعلان کے بعد تجارت، بنیادی ڈھانچے اورعلاقائی سلامتی سے متعلق معاہدوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ روس افغانستان کو علاقائی تنظیموں اور فورمز میں دوبارہ شامل کرانے کی کوشش کر سکتا ہے، جس سے طویل مدتی ترقیاتی امداد اور سرمایہ کاری کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
یہ تاریخی فیصلہ روس-افغانستان تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہے اور ماسکو کی عملی خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ سفارتی شناخت جو پہلے محض علامتی تھی، اب حقیقی روابط کی بنیاد بن سکتی ہے۔