خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو اب صوبے کے عوام کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ دہشت گردی میں حالیہ اضافے نے ان کی حکومت کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوق سے نہیں جیتی جا سکتی، تو پھر صوبائی حکومت نے متبادل حکمتِ عملی کیا اپنائی؟ یہ کہنا کہ فوجی کارروائیاں غیر ضروری ہیں، حقیقت سے فرار کے مترادف ہے۔
فوجی کارروائیوں کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ ہے تاکہ سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام کے لیے جگہ بن سکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں، جہاں تحریک انصاف گزشتہ بارہ برس سے برسراقتدار ہے، وہاں دہشت گردی کیوں بڑھ گئی؟
اگر وزیر اعلیٰ واقعی فوجی کارروائیوں کے مخالف ہیں تو قوم جاننا چاہتی ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی طور پر کیا اقدامات کیے؟
کتنی انسدادِ دہشت گردی کی لیبارٹریاں قائم ہوئیں؟ کتنی فرانزک لیبارٹریاں فعال کی گئیں تاکہ مقدمات کو ثبوت کی بنیاد پر منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے؟
انسدادِ دہشت گردی محکمے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے کتنے ماہرین، تفتیش کار یا تکنیکی وسائل شامل کیے گئے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کتنے دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کے مقدمات درج ہوئے؟ کتنے سہولت کار یا سیاسی پشت پناہ گرفتار ہوئے؟ اور کتنے مقدمات میں سزا سنائی گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور جرائم کا گٹھ جوڑ سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس نیٹ ورک کے پیچھے سیاسی سرپرستی، اسمگلنگ، بھتہ خوری اور منی لانڈرنگ کے تانے بانے ہیں جو تحریک انصاف کے دور میں مضبوط ہوئے۔
عوام یہ بھی پوچھتی ہے کہ صوبائی حکومت نے اپنے ہی سیاسی رہنماؤں کے خلاف کتنی کارروائیاں کیں جن کے بارے میں شواہد موجود تھے؟ تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ نرم رویہ اپنایا جس کا نتیجہ آج کے دوبارہ ابھرنے والے خطرات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ریاست کی جنگ دہشت گردی کے خلاف جاری ہے۔ فوج اپنا کردار ادا کر رہی ہے، مگر جب صوبائی حکومت نااہلی، کمزور اداروں اور سیاسی رعایتوں کا شکار ہو جائے تو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
سہیل آفریدی کو چاہیے کہ وہ عوام کے ان تمام سوالات کا جواب دیں، کیونکہ اب خاموشی ممکن نہیں۔ نہ دہشت گرد بچیں گے، نہ ان کے سیاسی سرپرست۔ اب وقت ہے واضح فیصلوں، متحد عزم اور مضبوط قیادت کا۔
دیکھیں: پشاور ہائی کورٹ کا سہیل آفریدی سے حلف لینے کا حکم، گورنر کنڈی کراچی سے پشاور روانہ