عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں مہاجرینِ جموں و کشمیر کے لیے مخصوص 13 نشستیں ختم کرنے کا مطالبہ کشمیر کاز کے لیے ایک خطرناک موڑ بن کر سامنے آیا ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مطالبہ محض ایک سیاسی نکتہ نہیں، بلکہ تحریکِ آزادی کشمیر کی اساس پر حملہ ہے۔
یہ نشستیں صرف انتخابی دائرے نہیں بلکہ ایک تاریخی اور قومی علامت ہیں — ان شہداء کی قربانیوں کا تسلسل جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے۔ ان نشستوں کے خاتمے کا مطلب ان قربانیوں سے انکار اور کشمیر کے بنیادی مسئلے سے دستبرداری کے مترادف ہے۔
سیاسی و دفاعی ماہرین کے مطابق، عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ مؤقف براہِ راست بھارتی بیانیے کو تقویت دیتا ہے، جو برسوں سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ “کشمیر تقسیم ہو چکا ہے”۔ ان نشستوں کو ختم کرنا دراصل اس مؤقف کو قبول کرنے جیسا ہے، جو کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے لیے خطرناک اور نقصان دہ عمل ہوگا۔
ان 13 نشستوں کی موجودگی عالمی برادری کو یہ یاد دلاتی ہے کہ لاکھوں کشمیری آج بھی اپنے وطن سے بے دخل ہیں مگر اپنی شناخت اور کاز سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان نشستوں کے ذریعے مہاجرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے سیاسی عمل میں شریک رہیں اور تحریکِ آزادی سے اپنا رشتہ قائم رکھیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ نشستیں صرف کرسی نہیں بلکہ قربانی، ہجرت اور عزم کی علامت ہیں۔ جو قوتیں انہیں ختم کرنے کی بات کرتی ہیں وہ دراصل شہداء کے خون اور کشمیری عوام کی اجتماعی جدوجہد سے انکار کر رہی ہیں۔ ان نشستوں کا خاتمہ کشمیری عوام کو بین الاقوامی سطح پر لاوارث ثابت کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
کئی کشمیری رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ مہاجرین کی نشستیں پاکستان اور کشمیر کے درمیان ایک زندہ رشتہ ہیں۔ ان کی نمائندگی اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان اور کشمیر ایک ناقابلِ تقسیم تاریخی اور جذباتی تعلق سے منسلک ہیں۔ ان نشستوں کو مٹانے کا مطلب اس رشتے کو کمزور کرنا اور دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دینا ہے۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ یہ نشستیں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی مزاحمت کی ایک سیاسی علامت ہیں۔ ان کے خاتمے سے دنیا کے سامنے یہ تاثر جائے گا کہ کشمیر کا تنازع ختم ہو چکا ہے، جو دراصل بھارت کی دیرینہ خواہش ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مطالبہ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ کشمیری قوم کے مفاد کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین نے یاد دلایا کہ مہاجرین کی نشستیں ان شہداء کی یادگار ہیں جنہوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے جانیں قربان کیں۔ انہیں ختم کرنے کا مطلب ان کی قربانیوں کی توہین اور تاریخ سے غداری کے مترادف ہوگا۔
ایک سینئر تجزیہ کار نے کہا: “جو قوتیں مہاجرین کی نشستوں کو ختم کرنے کی بات کرتی ہیں، وہ دراصل کشمیری عوام کو ان کے ماضی، ان کی قربانیوں اور ان کی شناخت سے محروم کرنا چاہتی ہیں۔”
کشمیر کے عوام اور سیاسی نمائندوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس مطالبے کو یکسر مسترد کریں گے، کیونکہ یہ تحریکِ آزادی کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
ان نشستوں کا وجود خود اس بات کی گواہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی زندہ ہے، اور کشمیری عوام اپنی آزادی کے مطالبے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ان نشستوں کو ختم کرنا اس زندہ حقیقت کو دفن کرنے کے مترادف ہوگا۔
دیکھیں: آزاد کشمیر میں پانچ روزہ احتجاج ختم: حکومت پاکستان اور عوامی ایکشن کمیٹی میں مذاکرات کامیاب ہو گئے