کابل (سیف اللہ خالد سے) افغانستان میں طالبان حکومت کے اندرونی اختلافات اب اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ایک دوسرے پر حملوں اور گرفتاریوں تک بات پہنچ گئی ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں تین بڑے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے طالبان کی اندرونی یکجہتی پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
نسلی اختلاف یا طاقت کی جنگ؟
بغلان میں طالبان کے فرنگ ضلع کے ڈسٹرکٹ چیف شبیراحمد کو 17 نومبر کو ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا گیا۔ شبیراحمد پشتون ہونے کے باوجود مقامی تاجک طالبان سے تعاون رکھتے تھے اور انہیں مقامی زمین اور وسائل قندھار و ہلمند کے کمانڈروں کے حوالے کرنے پر اعتراض تھا۔ طالبان انٹیلی جنس نے انہیں بیٹے اور کزن سمیت منتقل کر کے بغاوت اور “امیرالمؤمنین کے حکم عدولی” کا مقدمہ بنا دیا ہے۔
طالبان رہبر ملا ہیبت اللہ نے جون 2025 میں حکم جاری کیا تھا کہ جو بھی ان کے حکم کی مخالفت کرے گا، وہ “ریاست کے خلاف باغی” تصور ہوگا اور اس پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلے گا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں۔۔۔
فراہ میں حملہ: امدادی وسائل کی بندر بانٹ پر جنگ
فراہ میں طالبان شماریات ڈائریکٹر مسنا بلوچ پر صوبائی دفتر کے قریب حملہ کیا گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق حملہ طالبان ہی کے مخالف گروہ کا تھا جو بلوچ کی تعیناتی سے خوش نہیں۔
بلوچ امدادی سامان کی غیر قانونی تقسیم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس تنازع پر رواں ماہ گورنر آفس میں میٹنگ کے دوران مسلح ہاتھا پائی تک ہوئی تھی۔
بدخشاں میں گرفتاری: سونے کی کانیں اور طاقت کی سیاست
اسی ہفتے بدخشاں میں ذاغ ڈسٹرکٹ کے پولیس کمانڈر فہیم درویش کو گرفتار کیا گیا۔ درویش تاجک تھے اور مقامی طالبان کو سونے کی کانوں کے حقوق دلوانے کی کوشش میں پشتون کمانڈروں سے ٹکرا گئے۔ ان پر بھی “بغاوت” کا مقدمہ چلایا جائے گا۔
پس منظر: طالبان میں پیچیدہ نسلی سیاست
افغانستان کے شمالی و مغربی علاقوں میں مقامی تاجک، ہزارہ اور بلوچ طالبان مسلسل شکایت کرتے ہیں کہ طاقت اور وسائل پر پشتون, خاص طور پر قندھار و ہلمند کے کمانڈر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔
سونے کی کانیں ہوں یا سرکاری زمین اور امداد, سب کچھ چند ہاتھوں میں جمع ہونے لگا ہے۔
یہی وہ اختلافات ہیں جنہوں نے طالبان نظام میں خطرناک دراڑیں ڈال دی ہیں۔
حکمت یار کا دباؤ میں نکلنا: اختلافات کا ایک اور رخ
اطلاعات کے مطابق حزبِ اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار طالبان کے دباؤ اور مسلسل محاصرے سے تنگ آ کر ملک چھوڑ چکے ہیں۔
یہ منظرنامہ واضح کرتا ہے کہ جو بھی طالبان کی داخلی پالیسیوں پر سوال اٹھائے، اسے جگہ نہیں۔
افغان میڈیا اور بیانیہ: حقیقت اور پراپیگنڈے کا فرق
افغان میڈیا حالیہ ہفتوں میں یہ تاثر دے رہا ہے کہ
- افغانستان خطے میں تجارتی طور پر خودمختار ہو رہا ہے
- روس و ایران سے براہِ راست تجارت بڑھ رہی ہے
- پاکستان پر انحصار کم ہو رہا ہے
- سعودی ثالثی سے تعلقات بحالی کی راہ ہموار ہے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان مذاکرات بدستور ڈیڈلاک کا شکار ہیں، نہ کوئی لائحہ عمل طے پایا ہے، نہ کسی ثالث نے ٹھوس ذمہ داری لی ہے۔ افغان حکومت داخلی بحران چھپا کر بیرونی کامیابیوں کا تاثر دے رہی ہے۔
مستقبل کی طرف بڑھتے خطرات
- طالبان کی اندرونی تقسیم پہلے سے کہیں زیادہ کھل کر سامنے آ چکی ہے
- طاقت کی لڑائی نسلی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے
- مقامی قبائل کی بغاوت کے آثار اب نمایاں ہیں
- فوجی عدالتوں اور سخت گیر پالیسیوں نے بداعتمادی بڑھا دی ہے
اگر یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا رہا تو
طالبان حکومت کی ساخت اندر سے بکھر سکتی ہے؛ وہ بھی ایسے وقت جب افغانستان شدید معاشی دباؤ سے گزر رہا ہے۔
دیکھیں: مزار شریف میں نامعلوم افراد نے ترکمان بزرگ کو قتل کر دیا