نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) کے سربراہ برائے خارجہ تعلقات علی نذاری نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے نام پر کیے گئے حملے اصل میں افغان طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے ذریعے کیے جاتے ہیں، جو حملہ آور گروہوں میں شامل ہوکر سرانجام دیتے ہیں۔
علی نذاری کے مطابق مذکورہ رپورٹ غلط فہمی یا حقائق کے برعکس نہیں ہے بلکہ افغان طالبان کی سرپرستی میں منظم دہشت گردی کا سلسلہ ہے۔ نیز افغان اپوزیشن سمیت متعدد گروہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ازبکستانی اسلامی تحریک، طالبان کے مختلف گروہ اور القاعدہ ایک مشترکہ دہشت گرد نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انکے نام مختلف نام ہو سکتے ہیں لیکن دہشت گرد اور سرپرست ایک ہی ہیں۔ علی نذاری نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان طالبان اور القاعدہ کے جنگجو ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ افغان طالبان محض تماشائی یا ان سرگرمیوں سے بے خبر نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گردی میں اپنا بھرپور کردار اد کر رہے ہیں۔
این آر ایف کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے یونٹس ٹی ٹی پی، الزر اللہ اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو باآسانی ایک دوسرے کے ساتھ تعینات کرتے ہیں۔ لہذا یہ کوئی اتفاقی کارروائی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر منظم دہشت گردی ہے۔
مزاحمتی گروہوں کے مطابق ہر ہفتے غیر ملکی جنگجو افغان طالبان کے حکم پر افغانستان میں لڑنے کے لیے آتے ہیں اور پھر وہی جنگجو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔این ار ایف کی رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ افغان طالبان کے دعوے جھوٹے ہیں۔
علی نذاری نے مزید کہا کہ جب افغان ذرائع اور رپورٹس خود کہتی ہیں کہ یہ سب گروہ ایک جیسے ہیں فقط نام اور پہچان مخلتلف ظاہر کرتے ہیں، تو یہ افغان طالبان کی منافقت اور دوہری پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے۔ افغان طالبان خود دہشت گردانہ کرتے ہیں اور پھر ذمہ داری سے لینے سے انکار کرتے ہوئے اصطلاحات اور مذاکرات کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔
دیکھیں: جنگ نہیں، مذاکرات ہی پاک افغان مسئلے کا مستقل حل ہے؛ انوار الحق کاکڑ