افغانستان میں طالبان نے اپنی جانب سے اعلان کردہ عام معافی کی ایک بار پھر خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجشیر میں سابق افغان فوج کے پانچ اہلکاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ تمام گرفتار افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایران سے ڈی پورٹ ہونے کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔
مقامی ذرائع کے مطابق گرفتار شدگان میں کرنل شرام اللہ، گل بدین، علیم، جان محمد اور سلیمان شامل ہیں۔ ان میں سے دو بھائی، ایک بھتیجا اور دو کزنز شامل ہیں، جو ضلع شُتل کی رَوی درہ کے رہائشی ہیں۔ یہ تمام افراد سابق حکومت میں فوج یا سیکیورٹی اداروں میں خدمات انجام دے چکے تھے۔
طالبان کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق نیشنل ریزسٹنس فرنٹ اور افغانستان فریڈم فرنٹس سے ہے۔ تاہم مقامی ذرائع اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ اکثر گرفتاریاں صرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ مقامی طالبان کمانڈرز کو رشوت نہیں دی جاتی۔ مذکورہ خاندان سے فی کس ایک لاکھ افغانی طلب کیے گئے تھے، جس کی عدم ادائیگی پر انہیں حراست میں لیا گیا۔
ادھر پنجشیر میں 2021 کے بعد سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹوں کے مطابق اب تک 15 ہزار 543 افراد کو گرفتار یا لاپتا کیا جا چکا ہے، جن میں سے 543 کی ہلاکت کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ سال 2025 میں ان کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور عام شہری بھی مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔
گرفتار ہونے والوں میں نامور شخصیات بھی شامل ہیں، جن میں ڈاکٹر صاحب خان مرزا، مجیب، نَجم الدین اور سیف الدین شفاف زادہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبداللہ کے سابق گارڈز، پولیس افسران، ججوں اور نہتے شہریوں کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حتیٰ کہ چھ نوجوانوں کو محض گھاس کاٹنے کے جرم میں بھی پکڑ کر لے جایا گیا۔
مزید اطلاعات کے مطابق متعدد شہریوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے ہلاک کیا گیا ہے، جن میں عبدالمتین، عبدالرؤف اور عبدالشکور کے نام شامل ہیں۔ ہزاروں افراد کے لاپتا ہونے سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق گرفتار افراد کو پنجشیر میں ’’جی ڈی آئی‘‘ نامی مرکز میں قید رکھا گیا ہے، جس کے انچارج دو ماہ قبل تعینات ہونے والے ڈاکٹر بشیر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بازارک میں ایک نئی جیل کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے تاکہ مزید قیدیوں کو رکھا جا سکے۔
انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا ہے کہ طالبان کی پکڑ دھکڑ صرف سابق فوجیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ اب اساتذہ، ڈاکٹرز، صحافیوں اور عام شہریوں تک پھیل چکا ہے، جس سے پنجشیر اور دیگر علاقوں میں خوف و ہراس مزید بڑھ رہا ہے۔
دیکھیں: افغانستان سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس 10 دسمبر کو ہوگا