اسلام جس کا پہلا حکم’’اقرا‘‘ یعنی پڑھو تھا اور آقا محمد ﷺ نے کفار مکہ کےمظالم کے دوران بھی ام ہانی رضی اللہ عنہ کے گھر پہلا تعلیمی مرکز قائم کیا اور مدینہ ہجرت فرمائی تو قیامت تک کے انسانوں کی تعلیم کی ضروریات پورے کرنے کی خاطر صفہ کے چبوترے کو درس گاہ میں بدل ڈالا، بدر کے میدان میں پہلی فتح حاصل ہوئی تو دشمن کے پڑھے لکھے قیدیوں کی رہائی کے شرط عائد کردی کہ مال دولت نہیں چاہئے ، صرف ایک مسلمان کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ، وہی دین اسلام جس کی شان یہ ہے کہ معلوم تاریخ میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی جو آج بھی قائم ہے، وہ آکسفورڈ یا کوئی اور مغربی ادارہ نہیں بلکہ 857ء میں ایک مسلمان خاتون فاطمہ بنت محمد الفہری القریشی کا تیونس میں قائم کردہ مدرسی فاطمہ ہے ، جسے دنیا آج القرویین یونیورسٹی کے نام سے جانتی ہے ، اور یہ نام اسے 1963 میں دیا گیا ۔
مدرسہ فاطمہ اپنے عہد میں بھی آج کی کسی جدید یونیورسٹی سے کم نہ تھا۔ دنیا بھر سے مذہب اور زبان کی قید سے بالاتر ہو کر لوگ یہاں آتے تھے، اور اس دور میں بھی فلکیات، طب اور دیگر جدید علوم یہاں پڑھائے جاتے تھے۔ برصغیر پر انگریز کے تسلط کے بعد بھی مدارس نے علم و شعور کے چراغ روشن رکھے۔ پاکستان میں بھی مدارس کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔ مفتی عبدالرحیم کے زیر قیادت جامعۃ الرشید اور غزالی یونیورسٹی ، مفتی تقی عثمانی کا دارالعلوم کراچی، لاہور کا جامعہ اشرفیہ جس کی فیلڈ مارشل نے بھی تعریف کی ،ایسے بے شمار ادارے علم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان مدارس کے تعلیم یافتہ افراد میں ڈاکٹر، انجینیئر، بیوروکریٹ اور محققین بھی شامل ہیں، کیونکہ ان میں سے ایک مدرسہ جدید تعلیم کا دشمن نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں افغان طالبان رجیم نے اپنی محدود سوچ اور تنگ نظری کے باعث عالم اسلام کی اس تابناک روایت کو بھی مسخ کرنے کی ٹھان لی ہے، جب ہم افغان طالبان رجیم کے مدارس کی بات کرتے ہیں تو یہ اسلام کا وہ روشن باب قرار پانےو الا مدرسہ نہیں ، جس کی مثالیں پاکستان میں بکھری ہوئی ہیں بلکہ یہ دین کے نام پر مخصوص جاہلانہ سوچ مسلط کرنے کے ادارے ہیں ۔ افغانستان میں روایتی تعلیم کے اداروں سکول، کالج اوریونیورسٹیز کو عملاً ختم کر کے مخصوص نظریے کے تحت قائم کیے جانے والے مدارس کو فروغ دیا جا رہا ہے، جنہیں طالبان خود جہادی مدارس کا نام دیتے ہیں،لیکن ان کے نصاب پر نظر ڈالیں تو یہ نہ اسلام کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور نہ جہاد کے اصل تصور کی، یہ دراصل دین اور جہاد دونوں کی توہین ہے، جسے طالبان اپنے سیاسی اور اقتداری مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور یہ صرف دہشت گردی کے اڈے ہیں ،اور کچھ نہیں۔
دو ہزار اکیس کے بعد طالبان نے افغانستان کے تعلیمی نظام میں جو وسیع اور منظم تبدیلیاں کیں، ان کا بنیادی مقصد تعلیم نہیں بلکہ گروہی کنٹرول ہے۔ وزارت تعلیم کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جدید تعلیم کو پس منظر میں دھکیل کر ان مدارس کو ریاستی ترجیح بنا دیا گیا ہے۔ نصاب میں سائنسی، سماجی اور جدید مضامین کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے یا انتہائی محدود کر دیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ طالبان رجیم ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نظریاتی اہداف سے مکمل ہم آہنگ ہو۔ مگر افغان ماہرین تعلیم اور سماجی مبصرین متفق ہیں کہ اس طرز تعلیم کا نتیجہ تنقیدی سوچ کی کمی، فکری یک رنگی اور انتہا پسندی کی صورت میں نکل رہا ہے۔
یہ نظام نوجوانوں کو جدید دنیا کے تقاضوں سے کاٹ رہا ہے اور ملک کے معاشی و سماجی مسائل کے حل کی صلاحیت کو کمزور کر رہا ہے۔طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم کو رسمی طور پر نصاب کا حصہ تو بنایا ہے، لیکن عملی طور پر اسے صرف چند مخصوص مذہبی مضامین تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سائنس، ریاضی اور جدید علوم تک ان کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیکنڈری اسکول لڑکیوں کے لیے بند ہیں، مگر مخصوص سوچ کے ان مدارس میں داخلے کی اجازت ہے، وہ بھی بغیر کسی عمر کی حد کے۔ تعلیمی ڈھانچے کی اس تبدیلی کا ایک اور سنگین پہلو بڑے پیمانے پر اساتذہ کی برطرفی ہے۔ 22 دسمبر 2025 کو طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کے احکامات پر وزارت تعلیم نے مجموعی طور پر 90 ہزار اسامیاں ختم کرنے کا آغاز کیا، جن میں اکثریت خواتین اساتذہ کی تھی۔ پہلے مرحلے میں انہیں گھروں میں بٹھا کر تنخواہ جاری رکھنے کا وعدہ کیا گیا، مگر بعد ازاں انہیں فارغ کر دیا گیا۔ اس کے برعکس اپنی مخصوص سوچ کے حامل دینی مدارس کے لیے ایک لاکھ نئی اسامیوں کا اعلان کیا گیا۔
27 ستمبر 2025 تک طالبان نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور ہم خیال افرادی قوت بڑھانے کے لیے مدارس کی تعمیر کو غیر معمولی رفتار دے دی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو افغانستان کو مستقبل میں موجودہ طالبان سے بھی زیادہ شدت پسند نسل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وہ خلا ہے جس سے داعش خراسان جیسے گروہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔طالبان کی پالیسی کا نتیجہ صرف نظریاتی تربیت تک محدود نہیں۔ ان مدارس سے متعلق تشدد کی ترویج، مذہبی شدت پسندی اور حتیٰ کہ عسکری تربیت جیسے خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اعداد و شمار اس پالیسی کی سنگینی کو مزید واضح کرتے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں طالبان نے افغانستان میں 269 جدید اسکول تعمیر کیے، وہ بھی صرف پرائمری سطح تک، جبکہ اسی عرصے میں تقریباً 23 ہزار اسلامی تربیتی مراکز یا مدارس قائم کیے گئے۔جن میں تین لاکھ سے زائد طلبہ داخل ہوئے۔ ہر ایک جدید اسکول کے مقابلے میں 85 سے زیادہ مدارس قائم کیے گئے۔
ستمبر 2025 میں ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے دینی اور جہادی مدارس کے لیے خصوصی سہولیات مختص کرنے کا فرمان جاری کیا، جس کے مطابق ہر مدرسے میں 500 سے 1000 طلبہ کے لیے ہاسٹل ہونا چاہیے اور ہر طالب علم کو روزانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ مارچ 2024 سے مارچ 2025 کے دوران 420 سے زائد ہاسٹل تعمیر کیے گئے، جن میں اس وقت 21 ہزار سے زائد طلبہ مقیم ہیں۔ان مدارس میں طلبہ کو روزانہ 150 افغانی وظیفہ دیا جا رہا ہے۔ عملے کی تنخواہیں بھی واضح کرتی ہیں کہ ریاستی وسائل کا رخ کس طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ہر مدرسے میں تین سینئر محدثین کو 25 ہزار افغانی فی کس، تین شیوخ کو 20 ہزار افغانی، تین دینی فنی اساتذہ کو 14 ہزار افغانی اور ایک دارالحفظ استاد کو 20 ہزار افغانی ماہانہ دیے جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے نام پر ہر زون میں ایک خصوصی مدرسہ قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جس میں فی مدرسہ 79 اسامیاں رکھی گئی ہیں۔
تعلیمی مواد میں بھی بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ دری، پشتو اور معاشرتی علوم کی درسی کتب سے 51 مضامین حذف کر دیے گئے۔ مارچ 2023 سے مارچ 2024 کے دوران طالبان نے 10 صوبوں میں اپنےنام نہاد جہادی اسکولوں کے لیے 57 ہزار سے زائد دینی درسی کتب اور دیگر صوبوں میں چار لاکھ سے زائد کتب تقسیم کیں۔ اپریل 2025 میں لوگر، فراح اور غزنی میں تین نئے جہادی مدارس کی تعمیر شروع کی گئی، جبکہ کابل کے ضلع 5 میں محمد ابن حسن الشیبانی مدرسہ کا افتتاح کیا گیا، جہاں لڑکیوں کو انتہا پسندانہ تعلیم دی جا رہی ہے۔ نئے منصوبوں میں لوگر کے ضلع چرخ میں عبداللہ الماس مدرسہ، فراح کے ضلع خاک سفید میں فیض العلوم مدرسہ اور غزنی کے ضلع مقور میں آفیا صدیقہ مدرسہ برائے طالبان شامل ہے ، مجموعی طور پر ان تین مدارس کی تعمیر پر ساڑھے 7لاکھ افغانی خرچ آئے گا ۔
خوفناک حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس میں صرف ایک مخصوص فقہی اور فکری مکتب کو پڑھایا جا رہا ہے۔ دیگر مکاتب فکر کو درسگاہیں قائم کرنے کی نہ اجازت نہیں، بلکہ مختلف الزامات کے تحت انہیں ختم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ خود افغان طالبان میں شامل انصاف پسند اور معتدل ذمہ داران اس طرز عمل پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ، ان کے خیال میں یہ رویہ نہ صرف علمی تنوع کے خلاف ہے بلکہ اسلامی روایت کی بھی نفی ہے، جس نے ہمیشہ اختلاف رائے اور فکری وسعت کو جگہ دی۔سوال یہ ہے کہ مدارس تو پاکستان میں بھی ہیں ، ہرمسلم ملک میں موجو دہیں ، ہر دور میں موجود رہے ، لیکن کسی مسلم معاشرے کو کبھی ہنر مندوں کی کمی نہیں رہی ، کیونکہ اول تاریخ میں انہی مدارس نے سائنس دان ، انجینیئر اور طبیب پید اکئے ، بلکہ آج بھی حقیقی مدرسہ جدید تعلیم کا دشمن نہیں معاون ہے ، کیونکہ جدید علوم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، اسلام پہلے سن سے کبھی بھی تعلیم یا خواتین کی تعلیم کا مخالف نہیں رہا جبکہ طالبان رجیم نے افغانستان میں جدید تعلیم پر عملی پابندی لگا کر ملک کی آنے والی نسل کو محدود دنیا بینی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کے اثرات صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطے کی سلامتی پر بھی پڑیں گے۔
نتیجہ یہ ہے کہ طالبان کا موجودہ تعلیمی ماڈل دنیاوی یا دینی کوئی بھی علم نہیں بانٹ رہا بلکہ انتہا پسند روبوٹ پیدا کر رہا ہے ۔ یہ مدارس اسلام کی خدمت نہیں بلکہ ایک مسخ شدہ نظریے کی ترویج کر رہے ہیں۔ اگر افغانستان کو ایک پرامن، خود مختار اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو اسے تعلیم کو نظریاتی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ دین اور جدید علوم کو ایک دوسرے کا دشمن نہیں بلکہ ساتھی سمجھنا ہوگا، ورنہ تاریخ ایک بار پھر گواہی دے گی کہ علم کو قید کرنے والوں نے ہمیشہ اپنے معاشروں کو اندھیروں کے حوالے کیا۔