افغانستان کی سرزمین پر سرگرم شدت پسند نیٹ ورکس کے حوالے سے نئے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے انکشاف ہوا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے) کے سابق جنگجو بڑی تعداد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شامل ہو رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق 7 اگست 2025 کو کابل کے علاقے شاہ شہید میں افغان عبوری حکومت کی جانب سے تقریباً 500 سے 600 سابق جنگجوؤں کو طلب کیا گیا جو ماضی میں امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف ٹی ٹی اے کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔ اس ملاقات کی نگرانی مبینہ طور پر افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کی۔
ذرائع کے مطابق جنگجوؤں کو معمولی وظیفے کی پیشکش کی گئی مگر مستقل روزگار نہ دینے پر انہیں دو آپشن دیے گئے: یا تو پاکستان واپس چلے جائیں یا ٹی ٹی پی سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کریں۔ ان کے ہتھیار ضبط کر لیے گئے اور متعدد جنگجو اب ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال افغانستان کی شدت پسندانہ پالیسیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ جو جنگجو کبھی ’’مجاہدین‘‘ کے طور پر پیش کیے گئے، آج انہیں بطور وقتی اثاثہ استعمال کر کے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
افغان سرزمین بطور لانچ پیڈ
پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ یہ پیشرفت اُن خدشات کی تصدیق کرتی ہے کہ افغان سرزمین اب بھی سرحد پار دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ حالیہ فوجی آپریشنز میں متعدد افغان جنگجو ٹی ٹی پی کے ساتھ برآمد ہوئے جبکہ بھارتی اسلحہ بھی ان کے قبضے سے ملا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بیرونی قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان گروپس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہیں۔
دہشتگردی کا ’’فرنچائز ماڈل‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی اے ایک ’’فرنچائز ماڈل‘‘ کے تحت شدت پسندوں کو ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کے حوالے کر رہی ہے تاکہ دہشتگردی کا سلسلہ قائم رہے۔
پاکستانی اداروں کے مطابق رواں سال 2025 میں دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن میں سب سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی۔
سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال نے خطے میں استحکام کے بجائے عدم اعتماد اور بے یقینی کو بڑھا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسئلے کا حل صرف بامقصد مذاکرات اور مؤثر علاقائی تعاون میں ہے تاکہ دہشتگردی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔