افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں فتنۂ خوارج کی دہشت گردی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد نیٹ ورک یہی گروہ ہے، جسے طالبان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
طالبان حکومت کی پشت پناہی
رپورٹس کے مطابق طالبان حکومت فتنۂ خوارج کو محفوظ پناہ گاہیں، وسائل اور اخلاقی حمایت فراہم کر رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان رہنماؤں کی رہائی نے اس گروہ کو نہ صرف آزادانہ نقل و حرکت دی بلکہ انہیں نئے حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے سہولت بھی فراہم کی۔
امریکی انخلا اور اسلحے کا ذخیرہ
امریکہ اور نیٹو کے اچانک انخلا نے افغانستان میں ہتھیاروں کے بڑے ذخیرے چھوڑ دیے، جو بعد میں بلیک مارکیٹ کے ذریعے فتنۂ خوارج کے ہاتھ لگے۔ ان ہتھیاروں نے اس گروہ کو جدید اور تباہ کن حملے کرنے کی صلاحیت دی۔
پاکستان میں بڑھتے حملے
خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان حملوں کا مرکزی ہدف بنے ہیں تاکہ ریاستی رٹ کو کمزور کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، خارجی اپنی عدالتیں قائم کر کے عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے کا تاثر دیتے ہیں۔
مالی وسائل اور کرپٹو کرنسی
مارچ 2025 میں فتنۂ خوارج نے اپنے ٹیلیگرام چینل کے ذریعے بائنانس اکاؤنٹس پر چندہ دینے کی اپیل کی۔ رپورٹوں کے مطابق یہ گروہ بڑے پیمانے پر کرپٹو کرنسی کے ذریعے فنڈز اکٹھا کر کے انہیں دہشت گردی میں استعمال کر رہا ہے۔
ریاست اور عوام کے لیے خطرہ
یہ گروہ بھتے اور تاوان کو ٹیکس کا نام دے کر اپنے اقدامات کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کو بھرپور استعمال کر کے نوجوانوں کو گمراہ اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
وفاق اور صوبائی حکومت میں اختلافات
وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے درمیان سیاسی اختلافات اور عدم تعاون نے اس جنگ کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تقسیم دہشت گردوں کے لئے سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے۔
نتیجہ
پاکستان کی سکیورٹی فورسز بہادری سے لڑ رہی ہیں لیکن اس قومی جنگ کو مضبوط بنانے کے لئے وفاق اور صوبوں کا مکمل تعاون ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر فتنۂ خوارج خطے میں مزید خونریزی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔