اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بدھ کے روز افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر اپنی سہ ماہی بریفنگ کرے گی، جس میں کابل میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کی جانب سے سکیورٹی، انسانی حقوق اور سیاسی پیش رفت پر جامع اپڈیٹ پیش کی جائے گی۔ بریفنگ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب تقریباً تین ماہ سے یوناما کے پاس مستقل سربراہ موجود نہیں، جس کے باعث طالبان کے ساتھ سفارتی معاملات کو مؤثر انداز میں چلانے کی تنظیم کی صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس قیادت کے خلاء نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے کہ افغانستان جیسے نازک ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال اور سیاسی جمود کے باوجود یوناما کس حد تک اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ خواتین اب بھی تعلیم اور ملازمت سے محروم ہیں جبکہ مبینہ ماورائے عدالت کارروائیاں اور شہری آزادیوں پر پابندیاں مسلسل رپورٹ ہو رہی ہیں۔ طالبان نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں بلکہ یونامان کی مؤثر موجودگی پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔
یوناما کی جانب سے پہلے دو بڑے سفارتی اقدامات دوحہ میں جامع حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات اور بعد ازاں “موسائیک” کے نام سے مشاورت کا وسیع عمل بھی اپنے بنیادی اہداف حاصل نہ کر سکے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ سیاسی بحران کم ہوا اور نہ انسانی صورتِ حال میں بہتری آئی۔ لاکھوں افغان شہری آج بھی شدید معاشی دباؤ، غذائی کمی اور بنیادی سہولیات کی محرومی کا سامنا کر رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیے جانے کا امکان ہے کہ افغانستان کی بگڑتی سکیورٹی فضا خطے میں کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان نے بارہا خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں اور اسلحے کی غیر قانونی منتقلی سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسے ماحول میں جنوبی ایشیا جیسے جوہری خطے میں اسٹریٹیجک ہتھیاروں کی دوڑ اور عسکری کشیدگی عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شفافیت، ذمہ دارانہ عسکری رویوں اور علاقائی تعاون کے بغیر نہ صرف افغانستان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان سمیت پورا خطہ سکیورٹی، معیشت اور سفارت کاری کے نئے بحرانوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کے لیے اب یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ طالبان سے نمٹنے کے لیے کس حکمت عملی کو ترجیح دیتی ہے انسانی حقوق کی ضمانت یا محض محدود سفارتی مفاہمت؟
دیکھیں: ملکی مستقبل کی سمت