بھارت میں بڑھتی مذہبی عسکریت پر تشویش
چترکوٹ، بھارت — بھارت میں مذہبی عسکریت کا ایک خطرناک امتزاج ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی نے مکمل وردی میں ہندو آشرم کا دورہ کیا اور روحانی برکت حاصل کرنے کی کوشش کی، جس پر ملک بھر میں اور عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
ہندو آشرم میں آرمی چیف کی موجودگی، دعائیں اور دعوے
گزشتہ بدھ کو جنرل دویدی نے مدھیہ پردیش کے شہر چترکوٹ میں ہندو روحانی پیشوا جگدگرو رام بھدراچاریہ کے آشرم کا دورہ کیا۔ انہوں نے “رام منتر” کی درخواست کی، جو کہ ایک مقدس چنٹ سمجھا جاتا ہے اور فتح کی نشانی مانا جاتا ہے۔ تاہم، یہ دورہ اُس وقت متنازع ہو گیا جب روحانی پیشوا نے “آزاد کشمیر” کو اپنی “دکشِنا” (روحانی نذرانہ) کے طور پر مانگ لیا—اور دعویٰ کیا کہ آرمی چیف نے یہ مطالبہ قبول کر لیا۔
پیشوا نے میڈیا سے کہا، “بھارتی آرمی چیف میرے پاس آئے۔ میں نے انہیں رام منتر دیا، وہی منتر جو سیتا نے ہنومان کو دیا تھا۔ جب نذرانے کا وقت آیا، میں نے کہا، ’مجھے کشمیر چاہیے‘۔ انہوں نے مان لیا۔ ہم پاکستان کو جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔”
فوج اور مذہب کا خطرناک میل: قومی سلامتی کے لیے خطرہ؟
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کی مذہبی عسکریت خطے میں امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی سربراہ کی کسی خاص مذہبی پیشوا سے وابستگی، فوج کی آئینی سیکولر حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایسے اقدامات مسلح افواج میں ہندوتوا نظریے کی جھلک ظاہر کرتے ہیں، جس سے اقلیتی برادریوں—مسلمان، سکھ اور عیسائی—کے درمیان بے چینی بڑھ سکتی ہے۔
سیکولر فوجی شناخت کو زک
وردی میں مذہبی مقامات پر حاضری اور مذہبی عقائد کا کھلے عام اظہار بھارتی فوج کی غیرجانبداری پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ فوج ایک سیکولر ادارہ ہونے کے بجائے “ہندو راشٹر” کے محافظ کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ اس رجحان سے فرقہ وارانہ تقسیم میں اضافہ اور انتہا پسندی کو فروغ مل سکتا ہے۔
نتیجہ: فوج اور معاشرے کے لیے ایک وارننگ
آخر میں، بھارتی آرمی چیف کا یہ قدم بھارت میں مذہبی عسکریت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی علامت بن گیا ہے۔ جب ایک روحانی پیشوا آزاد کشمیر کو مذہبی نذرانے کے طور پر طلب کرتا ہے، اور ایک فوجی سربراہ اس کا خاموش حامی بنتا ہے، تو یہ صورتحال بھارت کے سیکولر آئین اور خطے کے امن کے لیے ایک کھلی وارننگ ہے۔