امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا بیان
واشنگٹن: مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بین الاقوامی سطح پر دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں، اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی مدت صدارت کے دوران مسئلہ کشمیربھی حل ہو جائے۔
ٹیمی بروس نے یہ بات امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران سوال و جواب کے سیشن میں کہی۔ ان سے پوچھا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، تو اس سلسلے میں کیا پیش رفت متوقع ہے؟
ٹرمپ کی بین الاقوامی ثالثی میں دلچسپی
اس سوال کے جواب میں ٹیمی بروس نے کہا کہ وہ صدر کے ارادوں یا منصوبوں پر تو بات نہیں کر سکتیں، مگر یہ ضرور کہہ سکتی ہیں کہ صدر ٹرمپ جو بھی اقدام کرتے ہیں، وہ بین الاقوامی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو بھی حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ ایسی شخصیات کو بھی ایک میز پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں جن کے درمیان بات چیت کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔
مسئلہ کشمیر پر مثبت توقعات کا اظہار
ٹیمی بروس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں اس وقت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا مخصوص منصوبہ یا حکمت عملی موجود ہے، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اس معاملے پر مزید تفصیلات اور پس منظر جاننے کے لیے وائٹ ہاؤس سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، موجودہ حالات میں جو سیاسی اور سفارتی فضا قائم ہے، وہ نہایت حساس، مگر بیک وقت ایک اُمید افزا اور مثبت سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی اور فیصلہ کن وقت ہے، جہاں بین الاقوامی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر ایسی پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے جو کسی بڑے اور دیرپا حل کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ عالمی سیاست میں تغیر بہت تیزی سے آ رہا ہے، اس لیے بعید نہیں کہ مسئلہ کشمیر جیسے عشروں پر محیط اور حساس تنازع کو بھی اسی صدارتی دور میں کوئی نیا موڑ یا ممکنہ حل مل جائے۔
مسئلہ کشمیرکا حل ایک اُمید کی کرن
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ سفارتی دروازے کھلے ہیں اور مذاکرات کے امکانات موجود ہیں۔ اگر متعلقہ تمام فریقین سنجیدگی سے آگے بڑھیں، تو یہ وقت کشمیری عوام کے لیے ایک نئی صبح، ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔