پاک-ترک تعلقات کو بھارتی میڈیا کی جانب سے مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے، جس سے تعصب کو فروغ ملتا ہے اور علاقائی جغرافیائی سیاست کی غلط تصویر ابھرتی ہے۔ حال ہی میں “انڈیا ٹوڈے” کی ایگزیکٹو ایڈیٹر گیتا موہن نے ایک ٹویٹ میں پاکستان-ترکی تعلقات کو “جغرافیائی سیاسی بم” قرار دیا، اور ان تعلقات کو اسلام آباد اور انقرہ کے درمیان نظریاتی اتحاد کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے کشمیر میں ترک ڈرونز کی پرواز، پاکستان کی مبینہ مغلیہ یادیں، اور صدر اردوان کے عثمانی خوابوں کو اس خطرے کی علامات کے طور پر بیان کیا۔ تاہم یہ تاثر حقیقت سے کوسوں دور ہے، کیونکہ یہ ان پاک-ترک تعلقات کے اسٹریٹجک محرکات کو نظر انداز کرتا ہے اور عوامی بیانیے میں بلاوجہ خوف پیدا کرتا ہے۔
میڈیا کی سنسنی خیزی اور قوم پرستانہ بیانیہ
بھارتی میڈیا خصوصاً وہ حلقے جو اکثر “گوڈی میڈیا” کے طور پر جانے جاتے ہیں، قوم پرستی کو صحافتی غیر جانبداری پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف عوامی شعور کو گمراہ کرتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں باہمی بداعتمادی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ مزید برآں بھارتی میڈیا اکثر پاکستان کے چین اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو نظریاتی عینک سے دیکھتا ہے جس سے ان عملی کوششوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے جو علاقائی استحکام اور اقتصادی ربط کے لیے کی جا رہی ہیں۔
حالیہ بھارت-پاکستان کشیدگی کے دوران یہ واضح ہوا کہ میڈیا بیانیے کس طرح موجودہ دشمنیوں کو مزید بھڑکا سکتے ہیں۔ جب سفارتی تعاون کو وجودی خطرہ قرار دیا جائے تو نتیجتاً مکالمے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور محاذ آرائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پاک-ترک گتعلقات میں اسٹریجیٹک مفادات، نہ کہ مذہبی جذبات
موہن کے دعوؤں کے برخلاف پک-ترک تعلقات تاریخی خوابوں یا مذہبی ایجنڈوں پر نہیں بلکہ باہمی اسٹریٹجک مفادات پر مبنی ہیں۔ ان میں دفاعی تعاون، علاقائی امن قائم کرنا، اور تجارت کو فروغ دینا شامل ہے۔ یہ شراکت داری علاقائی طاقت کے توازن کے لیے کی جا رہی ہے، نہ کہ کسی سلطنت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کثیر الجہتی سفارتکاری کو فروغ دے رہا ہے تاکہ خطے میں استحکام اور معاشی انحصار کو ممکن بنایا جا سکے۔
اگر ان سفارتی کوششوں کو محض ایک نظریاتی مہم قرار دیا جائے تو اس سے بھارتی میڈیا ممکنہ شراکت داروں کو بدظن کر سکتا ہے اور خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
جب صحافت پروپیگنڈہ بن جائے
جب صحافی ریاستی بیانیے کو بغیر تنقیدی جائزے کے دہراتے ہیں تو وہ خود صحافت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ موہن کی “#Statecraft” سیریز اس تناظر میں غیر جانبدار صحافت سے زیادہ ایک خاص مہم محسوس ہوتی ہے جو پاکستان کے خلاف ترتیب دی گئی ہو۔ ان کی منتخب کردہ تنقید بھارتی اینکرز جیسے ارنب گوسوامی اور گورو آریہ کے انداز سے مشابہت رکھتی ہے، جن پر غلط معلومات پھیلانے اور انتہا پسند قوم پرستی کو فروغ دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
موہن کا بیانیہ جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی شراکت داریوں کو سادہ “دوست بمقابلہ دشمن” کے فریم میں قید کرتا ہے جو خطے میں امن اور باہمی افہام و تفہیم کے عمل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ذمہ دارانہ مکالمے کی ضرورت
اگر بھارت واقعی مستقبل میں کشیدگی سے بچنا چاہتا ہے تو اس کے میڈیا کو جنگ پر مبنی بیانیوں کو ترک کر کے ذمہ دار، متوازن رپورٹنگ کو اپنانا ہوگا۔ امن صرف دفاعی حکمتِ عملی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ باہمی احترام، کھلے مکالمے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششوں سے ممکن ہوتا ہے۔
متعصب رپورٹنگ اور نظریاتی خوف پھیلانا اگرچہ وقتی سیاسی فائدہ دے سکتے ہیں لیکن یہ خطے کے طویل المدتی امن اور تعاون کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ خوف کی جگہ فہم، اور نعرہ بازی کی جگہ دلیل کو دی جائے۔ صرف اسی صورت میں جنوبی ایشیا پائیدار امن اور حقیقی علاقائی استحکام کی جانب بڑھ سکتا ہے۔