پاکستان اور افغانستان اربوں ڈالر کے ریلوے منصوبے کے ذریعے علاقائی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ اتوار کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ گفتگو کی۔ اس گفتگو کا مقصڈ ازبکستان-افغانستان-پاکستان (یو اے پی) ریلوے لائن منصوبے کو حتمی شکل دینا تھا۔
573 کلومیٹر طویل یہ منصوبہ بند ریل راستہ تاشقند کو کابل کے راستے پشاور سے جوڑے گا اور یوں پاکستان کی بڑی بندرگاہوں گوادر اور کراچی تک پہنچے گا۔ 4.8 ارب ڈالر کی تخمینی لاگت والا یہ ریلوے منصوبہ علاقائی تجارتی راستوں کو تبدیل کر دے گا نیز وسطی ایشیا کی زمین بند معیشتوں کو عالمی منڈیوں سے منسلک کرے گا۔
فریم ورک معاہدے کی عنقریب تکمیل
بات چیت کے دوران دونوں اطراف سے فریم ورک معاہدے پر دستخط کرنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ یہ قدم ڈار کی ازبک وزیر خارجہ بختیر اودیلووچ کے ساتھ ہونے والی پہلے سے گفت و شنید کے بعد اٹھایا گیا ہے جس کا مقصد آنے والی دستخطی تقریب کی تیاری ہے۔
اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوگیا تو یہ تین اہم ممالک کے درمیان کم لاگت اور زیادہ موثر تجارتی راستہ فراہم کرے گا۔ مزید برآں یہ سرحد پار تعاون میں بڑھتے ہوئے اعتماد کی علامت ہے جو کہ پچھلی دہائیوں کی عدم استحکام کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔
سفارتی تعلقات میں بہتری
معاشی تعاون کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے ایک بڑی سفارتی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان نے کابل میں اپنی سفارتی مشن کی سطح کو چارج ڈی افئیرز سے بڑھا کر سفیر کے درجے پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جواباً افغانستان بھی اسلام آباد میں اسی طرح کا اقدام کرے گا۔
متقی نے اس قدم کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسے “دو بھائی ملکوں کے درمیان تعلقات میں سنگ میل” قرار دیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دیگر ممالک نے بھی طالبان کی زیرقیادت حکومت کے ساتھ تعاون بڑھایا ہے جو ایک وسیع تر رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
باہمی اہداف کی تصدیق
وزراء نے اپریل میں ڈار کے دورہ کابل کے دوران ہونے والے معاہدوں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے خطے میں امن، تعاون اور رابطے کے عزم کی تصدیقِ نو کی۔
اگرچہ ماضی کے تعلقات میں عدم اعتماد کی فضا تھی لیکن بنیادی ڈھانچے اور سفارت کاری پر نئے سرے سے توجہ ترقی کی نشاندہی کرتی ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے یو اے پی ریلوے منصوبہ رفتار پکڑ رہا ہے اور سفارتی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، دونوں ممالک ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہیں۔
آخر میں یہ مشترکہ رفتار پائیدار استحکام کی راہ ہموار کر سکتی ہے جو مضبوط علاقائی تعلقات پر استوار ہوگا۔