کانگریس رہنما اور اپوزیشن لیڈرراہول گاندھی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو “ریاستی فراڈ” قرار دیتے ہوئے بی جے پی اور الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت “آپریشن سندور” کے بعد تیزی سے گر چکی ہے اور ان کی حکومت اب عوامی تائید کے بجائے دھاندلی اور ادارہ جاتی کنٹرول کے ذریعے قائم ہے۔
“یہ انتخاب نہیں، خودمختاری کی چوری ہے” — راہول گاندھی
راہول گاندھی نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے پورے انتخابی عمل کو ہائی جیک کیا۔ مثال کے طور پر کرناٹک کے حلقہ مہادیو پورہ میں کانگریس نے 8 میں سے 7 اسمبلی سیٹیں جیتیں لیکن لوک سبھا سطح پر بی جے پی نے 1,00,250 جعلی ووٹ ڈال کر کامیابی حاصل کی۔
انتخابی فراڈ کے پانچ طریقہ کار
راہول گاندھی نے تحقیقات کے بعد الیکشن میں دھوکے کے پانچ بنیادی طریقے سامنے رکھے۔ ان میں سب سے پہلے ڈپلیکیٹ انٹریز شامل ہیں، جہاں 11,965 ووٹرز کو بار بار رجسٹر کیا گیا، بعض اوقات مختلف ریاستوں میں بھی۔ دوسرا طریقہ جعلی پتوں کا تھا، جن کی تعداد 40,009 نکلی، جہاں ووٹر لسٹ میں “0” یا فرضی گھر اور جعلی شناختی کارڈ درج کیے گئے۔
تیسرا طریقہ ایک ہی پتے پر درجنوں ووٹرز کے اندراج کا تھا، جہاں 10,452 کیسز میں ایک کمرے یا دکان پر سینکڑوں ووٹر رجسٹر کیے گئے۔ چوتھا طریقہ تصاویر میں چھیڑ چھاڑ تھا، جن کی تعداد 4,132 رہی، تاکہ مبہم یا غائب تصاویر کے ذریعے شناخت ممکن نہ ہو۔
پانچواں بڑا دھوکہ فارم 6 کے غلط استعمال کا تھا، جہاں 33,692 کیسز میں نوجوان ووٹروں کے فارم کو بوڑھوں کے ڈپلیکیٹ ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
الیکشن کمیشن — بی جے پی کا آلہ کار؟
راہول گاندھی نے کہا کہ الیکشن کمیشن، جو ایک غیر جانبدار ادارہ ہونا چاہیے، دراصل بی جے پی کا آلہ کار بن گیا ہے۔ ووٹر لسٹوں تک رسائی روک دی گئی، پولنگ اسٹیشنز کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دبا دیا گیا اور ڈیجیٹل ریکارڈز کا آڈٹ بھی مسترد کر دیا گیا۔
یہی موقف کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدارامیا نے بھی اپنایا، جنہوں نے الیکشن کمیشن پر براہ راست “خیانت” کا الزام عائد کیا۔
بی جے پی کا ردعمل
بی جے پی نے ان الزامات کو “سیاسی ڈرامہ” قرار دیا، جبکہ الیکشن کمیشن نے راہول گاندھی کو “نام لے کر حلفیہ بیان دینے” کا چیلنج دیا۔ مبصرین کے مطابق یہ دباؤ اور دھمکانے کی حکمت عملی ہے تاکہ اصل سوالات کو دبایا جا سکے۔
بھارت کا جمہوری چہرہ بے نقاب
راہول گاندھی نے کہا کہ بھارت میں انتخابات اب عوامی مینڈیٹ نہیں بلکہ “پروگرام ایبل” اور “مینِیج ایبل” ہو چکے ہیں۔ مہاراشٹر، ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں ووٹ مارجن غیر منطقی نکلے۔ یوپی اور گجرات میں ووٹروں کی تعداد مردم شماری سے میل نہیں کھاتی۔
ان کے مطابق یہ صرف بھارتی عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ “عالمی جمہوریت کے لیے خطرہ” ہے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ “یہ انتخابات نہیں تھے، بلکہ عوامی خودمختاری پر ڈاکہ تھا۔” انہوں نے عدالتی تحقیقات، سول سوسائٹی کی متحرک شمولیت اور عالمی برادری سے اس صورتحال پر توجہ کی اپیل کی۔
دیکھیں: پاک بھارت تنازعے میں ٹرمپ کا کردار؛ امریکی وزارتِ خارجہ کی تصدیق