فلسطین: مزاحمتی تحریک حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے نئے منصوبے کو قبول کرتے ہوئے اس حوالے سے اپنا جواب ثالثوں (مصر اور قطر) تک پہنچا دیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کی زیرِ نگرانی مصر اور قطر فلسطین جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے تھے، ان دونوں ممالک کی جانب سے حالیہ منصوبہ ملنے ہونے کے بعد حماس کے رہنماؤں نے پیغام بھیجا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
حماس کے مرکزی رہنما باسم نعیم نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر کہا کہ حماس نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے اور نئی تجاویز پر بھی اتفاق کر لیا ہے، ہم اللہ کے حضور دعا گو ہیں کہ ہم پر مسلط کی گئی جنگ کا جلد از جلد خاتمہ ہو۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی حماس کے ایک رُکن نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حماس نے ان تجاویز کو بغیر کسی تحفظات کے قبول کر لیا ہے۔
مصری حکام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم نے قطر کے ساتھ مل کر نئی تجاویز اسرائیل کو بھیج دی ہیں اور اب یہ معاملہ اسرائیل کے ہاتھ میں ہے تاہم اسرائیل نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
القاہرہ کے مطابق مذکورہ منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں دو ماہ جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، بعض فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں امدادی سامان کی اجازت شامل ہے۔
حالیہ تجویز گزشتہ آٹھ، دس دن بعد سامنے آئی ہے جب اسرائیلی کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ اور اطراف میں فوجی کارروائیوں اضافے کی منظوری دی تھی، جس پر عالمی سطح پرشدید ردعمل اور اسرائیلی قیادت کے مابین بھی مخالفت دیکھنے میں آئی تھی۔
یاد رہے کہ آج سے دو سال قبل 2123 میں حماس کی جانب سے کیے گئے حملے میں 1219 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 251 یرغمالی بنائے گئے تھے، ان یرغمالیوں میں سے اب بھی 49 غزہ میں موجود ہیں،جن میں 27 ایسے ہیں جنہیں اسرائیلی فوج مردہ قرار دے چکی ہے۔
جبکہ داری جانب اسرائیلی جارحیت و سفاکیت کے نتیجے میں اب تک 62 ہزار سے سے زائد فلسطینی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری، خواتین اور بچے شامل ہیں۔
غزہ میں جاری انسانی بحران پر اسرائیل حکومت کو شدید عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عالمی انسانی حقوق کی تنظیمون نے تو شروع میں ہی اسرائیلی جارحانہ اقدامات کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔
دیکھیں: اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل کنٹرول کی منظوری دے دی