تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے حال ہی میں بھارتی خبر رساں ادارے آئی اے این ایس کو ایک انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ احسان اللہ احسان اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل دہشت گرد تنظیم کے ترجمان رہ چکے ہیں، اس لیے ان کے بیانات کو آزادانہ تجزیہ نہیں بلکہ شدت پسندانہ پراپیگنڈا سمجھا جانا چاہیے۔
بھارتی میڈیا کی سرپرستی اور پروپیگنڈا
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارتی میڈیا نے احسان اللہ احسان کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہو۔ وہ اکثر “سنڈے گارڈین” جیسے بھارتی جریدوں میں کالم لکھتے ہیں جو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا فنڈڈ ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ ان اداروں میں شائع ہونے والے مضامین اور انٹرویوز کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا اور جھوٹے بیانیے کو تقویت دینا ہے۔

ایف اے ٹی ایف اور عالمی اعترافات
پاکستان نے دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے دو بڑے ایکشن پلان مکمل کیے اور اکتوبر 2022 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ یہ پیش رفت پاکستان کی کامیاب اصلاحات اور عالمی تعاون کا نتیجہ تھی، جس میں اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تنظیموں کے خلاف عملی اقدامات شامل تھے۔ اس کے برعکس احسان اللہ احسان کا بیانیہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
داعش خراسان کی موجودگی
اقوام متحدہ کی جولائی 2025 کی مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق داعش خراسان کا اصل مرکز افغانستان میں ہے۔ پاکستان پر لشکرِ طیبہ اور داعش خراسان کے روابط کا الزام بھارتی بیانیہ ہے جسے کوئی معتبر ثبوت ثابت نہیں کرتا۔ امریکی ادارے بھی پاکستان کے انسداد دہشت گردی اقدامات کو تسلیم کر چکے ہیں، جس سے بھارتی پروپیگنڈے کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔
پاکستان کا مؤقف اور ردعمل
پاکستان بارہا واضح کر چکا ہے کہ وہ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون کر رہا ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ پاکستان کے مؤقف کے مطابق احسان اللہ احسان جیسے شدت پسند عناصر کے بیانات محض جھوٹے اور بھارتی پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور ایف اے ٹی ایف کی رپورٹس، امریکی بیانات اور پاکستان کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ الزامات حقیقت نہیں بلکہ جھوٹ اور پروپیگنڈا ہیں۔
دیکھیں: دہشت گردی کا آلہ کار بھارت؟ بھارتی سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا سامنے آ گیا