اگست کے آخر میں امریکی کانگریس کی جانب سے ایک نئی ترمیم سامنے آئی جس کے تحت پاکستان کے آئی ایم ای ٹی فوجی تربیتی پروگرام کو معطل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ تجویز ٹام لانٹوس ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین جم میک گوورن نے پیش کی اور اس میں شرط رکھی گئی کہ جب تک پاکستان اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم نہیں کرتا، پروگرام معطل رہے گا۔
سی یو ایس پی کا ردعمل
یہ تجویز سامنے آتے ہی تنظیم سی یو ایس پی نے سوشل میڈیا پر اسے شیئر کیا اور کہا کہ “پاکستان کے لیے آئی ایم ای ٹی پروگرام اس وقت تک معطل رہنا چاہیے جب تک اسلام آباد انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی پاسداری یقینی نہیں بناتا۔”
BREAKING: @RepMcGovern, leader of @RulesDemocrats & co-chair of @TLHumanRights, introduces amendment to must-pass Pentagon policy bill (#NDAA) that will:
— Coalition to Change U.S. Policy on Pakistan (CUSP) (@ChangePakPolicy) August 28, 2025
Suspend IMET military training for Pakistan until the regime respects basic norms of human rights and democracy pic.twitter.com/xNPKmuGNMh
بیرونی دباؤ کا تسلسل
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو 2022 میں عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد شروع ہوا۔ اب تک پاکستان کے خلاف 30 سے زائد قراردادیں اور ترامیم ایوان نمائندگان میں پیش کی جا چکی ہیں۔ ماہرین کے نزدیک یہ زیادہ تر اقدامات پی ٹی آئی کی مغربی لابنگ کا نتیجہ ہیں۔
پی ٹی آئی اور متنازع قانون ساز
ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اکثر ایسے امریکی قانون سازوں سے روابط رکھتی ہے جن کی پالیسیاں پاکستانی یا مسلم دنیا کے مفادات کے خلاف رہی ہیں۔ گزشتہ برس رکن کانگریس اینڈی اوگلز نے پاکستان کے لیے امداد محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ اوگلز اسرائیل کے کھلے حامی اور مسلمانوں کے سخت ناقد ہیں، اس کے باوجود پی ٹی آئی نے ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھے۔
انسانی حقوق کی آڑ میں پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش
تجزیہ کاروں کے مطابق انسانی حقوق کا بیانیہ محض ایک آڑ ہے، اصل مقصد ریاستِ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دباؤ ڈالنا ہے۔ ایسے اقدامات میں انسانی ہمدردی سے زیادہ سیاسی مقاصد جھلکتے ہیں۔
اہم دورہ اور پیچیدہ صورتحال
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکا کا دورہ کیا اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کو اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کو مستحکم بنانے اور آئی ایم ای ٹی پروگرام کو جاری رکھنے کی کوشش قرار دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی پر تنقید
ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی جماعتی اور ذاتی مفادات کو ریاستی مفاد پر ترجیح دے رہی ہے۔ ایسے قانون سازوں کے ساتھ روابط رکھنا جو مسلم امہ کے مخالف سمجھے جاتے ہیں، پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پاکستان کو امریکی سیاست میں گھسیٹنا
یہ صورتحال پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہے کیونکہ ملک کو بار بار امریکی اندرونی سیاست کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی ان اقدامات کو خودمختاری کی علامت قرار دیتی ہے، تاہم ناقدین کے نزدیک یہ طرز عمل دراصل ملک دشمنی کے مترادف ہے۔
اگرچہ اس ترمیم کی منظوری غیر یقینی ہے، لیکن یہ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ پاکستان کے داخلی معاملات کس طرح امریکی سیاست کے تسلط میں آ رہے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو آنے والے برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید پیچیدہ اور نازک ہو سکتے ہیں۔
دیکھیں: برسلز کانفرنس میں آرمی چیف نے عمران خان یا پی ٹی آئی کا کوئی ذکر نہیں کیا؛ ترجمان