چینی دارالحکومت بیجنگ کے تیانمن اسکوائر میں بدھ کے روز ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ منعقد ہوئی، جس کا مقصد دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جاپان کی شکست کے 80 برس مکمل ہونے کی یاد منانا تھا۔ یہ پریڈ چین کے لیے اپنی فوجی طاقت اور سفارتی اثرورسوخ کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا ایک موقع ثابت ہوئی۔ مغربی رہنماؤں نے اس تقریب کو بڑی حد تک نظرانداز کیا تاہم روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن جیسے رہنما اعزازی مہمانوں کے طور پر شریک ہوئے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں دنیا کو خبردار کیا کہ انسانیت آج امن یا جنگ، مکالمہ یا تصادم کے نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی عوام تاریخ کے درست رخ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ کہ چین ہمیشہ امن اور مکالمے پر یقین رکھتا ہے، نہ کہ تصادم اور بالادستی کی سیاست پر۔ صدر شی کے خطاب کو ایک نئے عالمی نظام کی جھلک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
عالمی رہنماؤں کی شرکت
اس پریڈ میں دنیا بھر سے 25 سے زائد عالمی رہنماؤں نے شرکت کی جن میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن، ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور انڈونیشیا کے صدر پرا بَوُو سبیانتو بھی شریک ہوئے۔

شہباز شریف تقریب کے دوران مسلسل توجہ کا مرکز رہے اور انہیں شی جن پنگ اور پیوٹن کے ساتھ نمایاں نشست پر بٹھایا گیا۔ تینوں رہنماؤں کے درمیان پریڈ کے دوران وقفے وقفے سے گفتگو بھی جاری رہی، جسے پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی کا ثبوت قرار دیا جا رہا ہے۔
فوجی طاقت کی بھرپور نمائش
پریڈ کے دوران چین نے اپنی فوجی طاقت کی شاندار نمائش کی۔ تقریباً پچاس ہزار فوجی اہلکاروں نے مارچ پاسٹ کیا اور جدید ہتھیاروں کی نمائش نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ ہائپر سونک میزائل، زیرآب ڈرون، ہتھیاروں سے لیس روبوٹ وولف اور جدید لڑاکا طیاروں نے پریڈ کا حصہ بن کر چین کی عسکری جدت کو اجاگر کیا۔

ہیلی کاپٹروں نے فضائی فارمیشن میں بڑے بینرز لہرائے اور آخر میں امن کی علامت کے طور پر اسی ہزار سفید کبوتروں کو فضا میں آزاد کیا گیا۔
تائیوان پر بحث
پریڈ کے دوران تائیوان بھی بحث کا اہم موضوع رہا۔ تائیوان نے اپنے شہریوں کو بیجنگ کی تقریب میں شرکت سے روک دیا تھا جبکہ اس کے صدر لائی چنگ-تے نے کہا کہ تائیوان امن کو بندوق کی نالی سے نہیں مناتا۔ اس کے جواب میں چین نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے واضح کیا کہ تائیوان اس کی سرزمین ہے اور علیحدگی کسی طور قبول نہیں کی جائے گی۔
امریکی صدر کا تبصرہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ولادیمیر پیوٹن اور کم جونگ اُن کو گرمجوشی سے سلام بھیجا لیکن ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ میں امریکا کے کردار کو اجاگر کیا۔ جاپان نے تبصرے سے گریز کیا اور محض یہ کہا کہ ایشیا کی بڑی معیشتیں تعمیراتی تعلقات قائم کر رہی ہیں۔

چینی صدر کا خطاب
شی جن پنگ نے پریڈ کے دوران دوسری عالمی جنگ کو چین کی عظیم نشاۃ ثانیہ کا آغاز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جاپانی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے بعد چین عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ انہوں نے نئے عالمی نظام کا خاکہ بھی پیش کیا جو بالادستی کی بجائے تعاون اور اتحاد پر مبنی ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیغام براہ راست امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ہدف بناتا ہے۔
روس اورشمالی کوریا کی بڑھتی قربتیں
اس پریڈ کو روس اور شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ جون 2024 میں روس اور شمالی کوریا کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعد یہ پہلی بڑی تقریب تھی جس میں دونوں ممالک کے سربراہان نے چین میں ایک ساتھ شرکت کی۔ بیجنگ میں پیوٹن اور کم جونگ اُن کی علیحدہ ملاقات کا بھی امکان ظاہر کیا گیا، جو مستقبل میں ایشیا پیسفک کے فوجی توازن کو بدل سکتا ہے۔

چین نے اس موقع پر اپنی اندرونی اصلاحات کا بھی اشارہ دیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران بدعنوانی کے الزام میں پیپلز لبریشن آرمی کے درجنوں اعلیٰ افسران کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس پریڈ کا ایک مقصد عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹا کر فوجی جدیدیت اور حب الوطنی کی طرف مبذول کرانا بھی تھا۔ شی جن پنگ نے کہا کہ چین کی نشاۃ ثانیہ ناقابل شکست ہے اور پوری قوم اس پر یقین رکھتی ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی کو سبکی
اس تقریب میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو شرکت کی دعوت نہ دینا ایک بڑی سفارتی پیش رفت کے طور پر سامنے آیا۔ تجزیہ کاروں نے اسے بھارت کے لیے سبکی قرار دیا کیونکہ چین نے مودی کو نظرانداز کرکے واضح پیغام دیا کہ وہ بھارت کو خطے کا مرکزی شراکت دار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کو نمایاں مقام دینا چین اور پاکستان کے قریبی تعلقات کی عملی تصویر کے طور پر دیکھا گیا۔
بیجنگ میں ہونے والی اس فوجی پریڈ نے نہ صرف ماضی کی یاد دہانی کرائی بلکہ مستقبل کے نئے عالمی نظام کے خدوخال بھی واضح کر دیے۔ چین نے دنیا کو اپنی عسکری طاقت دکھائی، روس اور شمالی کوریا کے ساتھ قریبی تعلقات ظاہر کیے، پاکستان کو اہم شراکت دار کے طور پر نمایاں کیا اور بھارت کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پریڈ اس امر کا اعلان تھی کہ چین اب عالمی سیاست کے ڈرائیونگ سیٹ پر ہے اور دنیا کو اس نئے توازن کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
دیکھیں: شہباز شریف کی فیلڈ مارشل اور وزیر خارجہ کے ہمراہ چینی صدر سے ملاقات