قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ خطے کی سیاست اور عالمی طاقتوں کے توازن پر گہرا سوال ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل نے ایک ایسے ملک کو نشانہ بنایا ہے جو نہ غزہ کی طرح بے بس ہے اور نہ ایران کی طرح عالمی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ قطر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا اہم شراکت دار ہے اور اس کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی اسٹریٹیجک ریاست اپنی خودمختاری کے خلاف اس کھلی جارحیت پر مؤثر جواب کیوں نہیں دے پا رہی؟
امریکہ اور اسرائیل: طاقت کا کھیل
غزہ میں جاری ہولناک جنگ کو روکنے کیلئے جب بھی امریکہ، خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مذاکرات کے لیے فریقین کو اکٹھا کرتے ہیں، اسرائیل ایک نئی کارروائی کر کے حالات کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نیتن یاہو خود کو دنیا کا سب سے طاقت ور حکمران مانتے ہیں؟ کیا ٹرمپ یا دیگر امریکی و عالمی قیادت محض اسرائیلی پالیسی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ کی پشت پناہی حاصل کر کے کوئی بھی ملک عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر سکتا ہے؟
قطر کی عسکری صلاحیت اور سوالیہ نشان
قطر کے پاس دنیا کے جدید ترین جنگی طیارے ہیں اور وہ خطے میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کے حملے کے بعد قطر کی عسکری صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ خلیجی تعاون کونسل کی مشترکہ ’’جزیرہ نما شیلڈ فورس‘‘ جس کا مقصد ہی جی سی سی کے ارکان ممالک بحرین ، کویت ، عمان ، سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں سے کسی کے خلاف فوجی جارحیت کو روکنا اور اس کا جواب دینا ہے، بھی برسوں سے کمزور تاثر دے رہی ہے۔ کیا یہ فورس اب حرکت میں آئے گی یا ایک بار پھر خاموش رہے گی؟
اگلا نشانہ کون؟
اسرائیل نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں فلسطین، لبنان، شام، تیونس اور قطر پر حملے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران سمیت دیگر کئی ممالک اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان تمام حملوں پر جہاں اسرائیل کو امریکی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے وہیں عالمی برادری بھی سوائے مذمت کے کوئی عملی اقدام نہیں کرتی۔ سوال یہ ہے کہ اب اگلا نشانہ کون ہوگا؟ کیا یہ جارحانہ اسرائیلی پالیسی خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے؟
عالمی برادری کی ذمہ داری
قطر پر حملے نے عالمی برادری کو چونکا دیا ہے۔ یہ محض ایک خودمختار ریاست پر حملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا اسرائیلی جارحیت پر محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، خطے کا امن اور عالمی استحکام ایک ایسے بحران کا شکار ہو سکتا ہے جس کے اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
دیکھیں: اسرائیل کا قطر میں حماس کی قیادت پر فضائی حملہ، عالمی برادری کی شدید مذمت