کابل میں آج افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی نمائندے ایڈم بولر کی قیادت میں وفد سے ملاقات کی۔ وفد میں افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی نمائندہ ڈاکٹر زلمے خلیل زاد بھی شامل تھے، جو ماضی میں دوحہ مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ وفد کی ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے مقررکردہ انتہائی قریبی ساتھی سے بھی ملاقات ہوئی۔
ملاقات کا ایجنڈا
ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ، شہریوں کے مسائل، سرمایہ کاری کے مواقع اور قیدیوں کے معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ وزیر خارجہ نے دوحہ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ بہترین وقت ہے کہ تعلقات معمول پر آئیں اور ایسے پیچیدہ مسائل باقی نہیں رہے جو حل نہ ہو سکیں۔

امریکی مؤقف
ایڈم بولر نے سب سے پہلے مشرقی افغانستان میں حالیہ زلزلے پر تعزیت کی اور افغان عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اقوام کی انتخابی آزادی کا احترام کرتا ہے اور افغان عوام پر کچھ مسلط نہیں کرنا چاہتا۔ ان کے مطابق کابل کا سابقہ دورہ سودمند رہا تھا، اور ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنی کوششیں جاری رکھیں تاکہ مثبت نتائج سامنے آئیں۔
زلمے خلیل زاد کی موجودگی اور خدشات
ملاقات میں زلمی خلیلزاد کی موجودگی نے سیاسی حلقوں میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ خلیلزاد کو خطے میں پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ان کی واپسی ایک نئی امریکی حکمتِ عملی کا اشارہ ہو سکتی ہے۔
پوشیدہ ایجنڈے اور خطے پر اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایڈم بولر اور زلمے خلیل زاد جیسے شخصیات کا کابل آنا محض تعلقات کی بحالی کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بڑے جغرافیائی اور سیاسی مقاصد کارفرما ہو سکتے ہیں۔ ایڈم بولر کو بعض حلقے صیہونی لابی سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں، جبکہ خلیل زاد کی تاریخ پاکستان کے حوالے سے تلخ رہی ہے۔ ایسے میں اس وفد کی آمد نے خطے میں شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہے۔
یہ ملاقات مستقبل میں افغانستان اور امریکہ کے تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم اس دوران پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ پیش رفت کسی نئے دباؤ یا حکمتِ عملی کا حصہ نہ ہو۔