اسلام آباد: بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مہرنگ بلوچ کو نوبل امن انعام کے ممکنہ امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی مبینہ مہم پر جھگڑا پیدا ہو گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کالعدم تنظیموں سے روابط اور ان کی حمایت میں سرگرمیاں نہ صرف نوبل انعام کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں بلکہ دنیا کے معزز ایوارڈ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خطرہ بھی پیدا کرتے ہیں۔
مہرنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی
مہرنگ بلوچ عموماً بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی نمائندے کے طور پر جانی جاتی ہیں ماہ رنگ بلوچ دراصل غفار لانگو کی صاحبزادی ہیں جو بلوچ لبریشن آرمی کے ایک کمانڈر تھے۔ ان کی قبر پر اسی تنظیم کا پرچم لہرایا گیا ہے۔
مہرنگ بلوچ کی سربراہی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جبری گمشدگیوں اور حقوق کے مسائل پر متعدد مظاہرے کیے تاہم پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے مطابق یہ تنظیم شدت پسند گروہوں کے بیانیے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ان کے سابق باڈی گارڈ صہیب لانگو کو بعد میں خود بی ایل اے نے شہریوں پر حملوں میں ملوث کمانڈر کے طور پر شناخت کیا۔ ایک اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رکن گل زادی نے دعویٰ کیا کہ اس کا بھائی ودود ستک زئی جبری طور پر لاپتہ ہے تاہم بعد میں بی ایل اے نے ہی اس کو گزشتہ سال مچھ حملے میں خودکش بمبار قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نہ صرف شدت پسندوں کو عوامی حمایت کے بہانے چھتری فراہم کرتی ہے بلکہ نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ریاست بلوچستان کے مسائل کو بہتر سمجھتی ہے مگر ایسی بین الاقوامی سازشیں جو شدت تنظیموں سے منسلک شخصیات کو نمایاں کرتی ہیں وہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی پالیسیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ان خاندانوں کو پس پردہ کر دیتی ہیں جو خود دہشت گردی کا شکار بنی ہیں۔
فرائڈنیس، کیا اور ملالہ کا آپس میں تعلق
تشویش میں اس وقت اضافہ ہوا جب اطلاعات سامنے آئیں کہ مئی 2024 میں مہرنگ بلوچ نے یورگن واٹنے فرائڈنیس سے ملاقات کی، جو نہ صرف نوبل کمیٹی کے رکن ہیں بلکہ پین ناروے کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ پین ناروے ایک آزاد تنظیم ہے جو 1921 میں ادیبوں اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی تھی۔
یہ ملاقات نارویجن کارکن کیا بلوچ کی مدد سے ممکن ہوئی، جو پین ناروے کے لیے کام کرتے ہیں اور جن کی تحریریں اکثر بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مؤقف کی عکاسی کرتی ہیں۔
بعد میں مہرنگ بلوچ نے ملالہ یوسفزئی اور فرائڈنیس سے بھی ناروے میں ملاقات کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان تینوں شخصیات میں سے کسی نے بھی بی ایل اے یا بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے نسلی بنیادوں پر قتل عام یا خودکش حملوں کی مذمت نہیں کی۔ اس کے برعکس ان کی وکالت مہرنگ بلوچ کے منتخب بیانیے کو مزید تقویت دیتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ نوبل کمیٹی کے رکن کا ایسی شخصیت سے ذاتی روابط رکھنا جس پر کالعدم تنظیموں سے تعلق کا الزام ہو، ایسے افعال ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہیں۔ جبکہ ان کی جانب سے بلوچستان میں شدت پسندی پر خاموشی نے جانبدارانہ رویے پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔
جیو پولیٹیکل تناظر
یہ تنازع صرف شخصیات یا تنظیموں تک محدود نہیں بلکہ وسیع جغرافیائی و سیاسی محرکات سے بھی جڑا ہے۔ بی ایل اے کی بانی حربیار مری پر طویل عرصے سے الزام ہے کہ امہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیل کی موساد کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ ان کے پروپیگنڈا اور بیانیے کو میمری اور بھارتی میڈیا چینلز کے ذریعے تقویت بخشی گئی۔
اسلام آباد میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہرنگ بلوچ کی پین ناروے اور فرائڈنیس کے ذریعے عالمی سطح پر مقام و مرتبے کا ملنا دراصل ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو سفارتی طور پر کمزور کرنا اور دہشت گردی کے خلاف اس کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔
کیوں یہ اہم ہے؟
بی ایل اے اور مجید بریگیڈ وہ تنظیمیں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد قرار دی جا چکی ہیں۔ یہ گروہ خودکش حملوں اور نسلی بنیادوں پر قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ ایسی مہمات جو ان تنظیموں سے منسلک شخصیات کو عالمی سطح پر اجاگر کریں وہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی انسداد دہشت گردی کے نظام کو بھی شدید متاثر کرتی ہیں۔
ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ نوبل امن انعام جیسے باوقار ایوارڈ کو ایسے افراد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو درحقیقت انتہا پسند گروہوں کے حامی ہیں نیز ان معصوم متاثرین کے ساتھ بے انصافی ہے جو واقعی امن اور انصاف کے منتظر ہیں۔
مستقبل میں امکانات؟
مہرنگ بلوچ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پر ہونے والی بحث نے ایک اہم نکتہ اجاگر کیا ہے: انسانی حقوق کی وکالت اور دہشت گردی کے خلاف عالمی ذمہ داری میں توازن۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مہرنگ بلوچ کی حمایت میں جاری مہم امن و امان کے نام پر نہیں بلکہ ان نیٹ ورکس کے ذریعے چلائی جا رہی ہے جو کالعدم و شدت تنظیموں اور غیر ملکی ایجنڈوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ نوبل کمیٹی کو پین ناروے کے کردار، فرائڈنیس کی شمولیت اوربلوچ کجہتی و بلوچ لبریشن آرمی سے مبینہ روابط کو تحقیقات کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ انعام کی ساکھ اور غیر جانبداری برقرار رہ سکے۔
ورنہ خبردار کیا جا رہا ہے کہ نوبل امن انعام انتہا پسندوں کے حامیین کو امن کے نام پر راستہ فراہم کرنا ایک سیاسی ہتھیار بن جائے گا۔
دیکھیں: بلوچستان نیشنل موومنٹ کی جنیواکانفرنس میں ریاست مخالف بیانیے کی گونج