بھارت نے تصدیق کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے افغانستان کے طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی پر عائد سفری پابندی کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جس کے بعد وہ 9 اکتوبر سے 16 اکتوبر 2025 تک نئی دہلی کا دورہ کریں گے۔ یہ وہی درخواست تھی جو اس سے قبل مسترد کر دی گئی تھی۔
نئی دہلی پر عالمی توجہ
اقوام متحدہ کے مطابق 30 ستمبر 2025 کو سلامتی کونسل کی وہ کمیٹی جو قرارداد 1988 (2011) کے تحت قائم کی گئی تھی، نے امیر خان متقی کو 9 سے 16 اکتوبر 2025 تک بھارت کے شہر نئی دہلی جانے کے لیے سفری استثنیٰ کی اجازت دے دی ہے۔
افغان وزارتِ خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ متقی 7 اکتوبر کو ماسکو سربراہی اجلاس کے بعد بھارت جائیں گے، جس میں چین، ایران، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے 3 اکتوبر کو بتایا کہ سفری استثنیٰ کی تفصیلات عوامی ریکارڈ میں موجود ہیں۔
یہ متقی کا بھارت کا پہلا سرکاری دورہ ہوگا۔ وہ 2001 سے سلامتی کونسل کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں، جس کے تحت ان کے اثاثے منجمد اور ان پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔
جیسوال نے مزید کہا کہ بھارت نے افغان انتظامیہ کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا ہوا ہے اور 31 اگست کے زلزلے کے بعد انسانی امداد بھی فراہم کی گئی۔ تاہم انہوں نے متقی کے آئندہ دورے کے مقاصد پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
طالبان وزیرِ خارجہ کا بھارت کا مجوزہ دورہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی نذر
سلامتی کونسل کی جانب سے امیر خان متقی پر عائد سفری پابندیوں نے ان کے مجوزہ کو پاک بھارت کے دوروں کو متاثر کیا تھا۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، اور کابل پر چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔
متقی کا پاکستان کا 4 اگست کا مجوزہ تین روزہ دورہ “انتظامی وجوہات” کی بنا پر مؤخر کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے اس وقت کہا تھا کہ کچھ تکنیکی مسائل پر کام جاری ہے۔
متقی کو وزیرِاعظم شہباز شریف، وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، اور دیگر اعلیٰ حکام سے سیاسی، معاشی اور سلامتی کے امور پر ملاقات کرنا تھی۔
بھارت اور افغانستان کے تعلقات میں نیا موڑ
2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بھارت نے اپنا سفارتی مشن بند کر دیا تھا، تاہم 2022 میں بھارتی سفارت خانہ ایک تکنیکی ٹیم کے ساتھ دوبارہ کھولا گیا جو محتاط سفارتی بحالی کی علامت ہے۔
گزشتہ سال ایک بھارتی وفد نے کابل کا دورہ کیا اور افغان حکام سے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں۔
مئی 2025 میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پہلی بار امیر خان متقی سے براہِ راست گفتگو کی۔
اس سے قبل فروری میں بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نے دبئی میں متقی سے ملاقات کی جہاں چابہار بندرگاہ کے ذریعے تجارتی و اقتصادی روابط بڑھانے پر بات ہوئی۔
اس دوران ایک بھارتی اخبار سنڈے گارڈین نے انکشاف کیا تھا کہ افغان نائب وزیرِ داخلہ ابراہیم صدر جو طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے قریبی ساتھی ہیں — نے “پہلگام واقعہ” کے بعد خفیہ طور پر بھارت کا دورہ کیا تھا۔
اس خبر سے پاکستان میں تشویش پیدا ہوئی، تاہم بھارت اور افغانستان دونوں نے اس پر تصدیق یا تردید سے گریز کیا۔
معاشی تعلقات میں وسعت
سفارتی مشکلات کے باوجود بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت 2024 میں 890 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ 2001 سے 2021 تک بھارت نے افغانستان میں 200 ارب روپے (تقریباً 2.4 ارب امریکی ڈالر) کی سرمایہ کاری کی، جس میں انفراسٹرکچر، تعلیم، اور صحت کے منصوبے شامل تھے، مگر 2021 میں سفارت کار واپس بلالیے گئے۔
افغان وزارتِ صنعت و تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد کے مطابق سنہ 1403 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 890 ملین ڈالر رہا۔
جون 2022 کے بعد سے بھارت کی افغان پالیسی کا محور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور تکنیکی تعاون رہا ہے۔
امیر خان متقی کا آنے والا دورہ اس لحاظ سے بھارت کی طالبان حکومت کے ساتھ پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کی علامت ہو سکتا ہے۔
دیکھیں: جب افغانستان نے سوویت یونین کو پاکستان پر حملوں کی اجازت دی