امریکی نژاد افغان سفارتکار زلمے خلیل زاد ایک بار پھر پاکستان مخالف مہم میں مصروف ہیں۔ ان کا حالیہ بیانیہ دراصل ان کے پرانے تعصبات، ذاتی ناکامیوں اور سیاسی انتقام کا تسلسل ہے۔ دہائیوں پر محیط ان کی سفارتی زندگی میں پاکستان ہمیشہ ان کے نشانے پر رہا کیونکہ اسلام آباد نے کبھی ان کے دباؤ کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
ذاتی تعصب اور سیاسی انتقام
خلیل زاد کا پاکستان سے بغض محض سفارتی اختلاف نہیں بلکہ ایک ذاتی دشمنی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہ امریکہ کے زیرِ سایہ سفارتکاری کے دوران اپنی ناکامیوں کا الزام ہمیشہ پاکستان پر ڈالتے رہے۔ طالبان کے ساتھ ان کی حالیہ ملاقاتوں نے افغانستان کے اندر بھی شدید مخالفت کو جنم دیا ہے۔ انہیں آج بھی افغان عوام ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے ان کے ملک کو برباد کیا۔
دوحہ معاہدہ اور افغانستان کی تباہی
زلمے خلیل زاد نے دوحہ معاہدے کے ذریعے افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس نے نہ صرف افغان حکومت کو کمزور کیا بلکہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کی واپسی ہوئی اور سات لاکھ سے زائد افغان شہری بے گھر ہوئے۔ خلیل زاد وہ شخص ہیں جنہوں نے افغانستان کے زوال کو اپنے کیریئر کی کامیابی بنا دیا۔
مالی مفادات اور امریکی وابستگی
اپنے سفارتی دور کے دوران خلیل زاد کی وفاداری کبھی افغانستان سے نہیں بلکہ واشنگٹن کے مالی مفادات سے رہی۔ ان کی کمپنی نے امریکی پالیسی حلقوں میں لابنگ کے ذریعے لاکھوں ڈالر کمائے۔ وہ بحرانوں کو حل کرنے کے بجائے انہیں برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہی ان کے معاشی فائدے کا ذریعہ ہے۔
دہشتگردی کا ذمہ دار
زلمے خلیل زاد کے دور میں افغانستان میں داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہ مضبوط ہوئے۔ 2018 سے 2021 کے دوران پاکستان پر سرحد پار حملوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ سب ان کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا، لیکن آج وہ انہی حملوں کا الزام پاکستان پر ڈال کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
تضادات اور دوغلی پالیسیاں
زلمے خلیل زاد کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ کل طالبان کو سیاسی حقیقت کہتے تھے، آج انہی طالبان کے اثرات کے خلاف پاکستان پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کل طالبان کو اقتدار دلانے کے لیے امریکہ کو قائل کر رہے تھے اور آج پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی پر کوس رہے ہیں۔ ان کی باتوں میں کوئی تسلسل نہیں، صرف موقع پرستی ہے۔
اختتامیہ
زلمے خلیل زاد ایک ایسا کردار ہیں جنہوں نے افغانستان کو دو بار بیچا—پہلی بار امریکہ کو اثر و رسوخ کے لیے، دوسری بار طالبان کو اپنی شہرت بچانے کے لیے۔ عراق سے افغانستان تک ان کی ہر مداخلت خون اور ناکامی کا باعث بنی۔ آج وہ پاکستان کو نشانہ بنا کر صرف اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا بیانیہ امن نہیں بلکہ انتشار کی تجارت ہے، جس کا مقصد صرف ذاتی مفاد اور مغربی تھنک ٹینک حلقوں میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا ہے۔
دیکھیں: بھارت افغانستان کا بہترین دوست اور صف اول کا ساتھی ہے؛ امیر خان متقی