ریاستِ پاکستان نے افغانستان سے متعلق اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ سرحدی کشیدگی اتفاقاً نہیں ہوئی بلکہ پڑوسی ملک افغانستان سے جاری دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ اسی تناظر میں وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کے حالیہ بیانات کا مقصد دہشت گردی کے اصل ذامہ داروں، سرپرستوں سے توجہ ہٹانا اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا ہے۔۔
وزارتِ خارجہ پاکستان نے کہا کہ جب 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو پوری دنیا نے اپنے سفارت خانے بند کر دیے لیکن پاکستان نے اپنا سفارتی مشن کھلا رکھتے ہوٗے طالبان حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور انخلا کے دوران غیر ملکیوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا۔ اسی طرح ریاستِ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر افغان عوام کے 9 منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ہماری جانب سے امن، تجارت اور سرحدی تعاون کے لیے مسلسل کوششوں کے باوجود افغان سرزمین ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔
افغان حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے مطابق کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گروہوں کے خلاف کاروائی کریں گے۔ تاہم، دیکھا جائے تو افغان حکومت نے ابھی ابھی تک اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
دستاویز کے مطابق ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود افغانستان میں طالبان حکومت کی سرپرستی میں زندگی گزار رہے ہیں اور اسے باقاعدہ فنڈنگ بھی کی جا رہی ہے۔ ریاستِ پاکستان نے افغان حکومت کو دہشت گرد ٹھکانوں کے واضح شواہد بھی فراہم کیے لیکن ان کے خلاف عملی اقدامات کے بجائے انکو مزید مضبوط کیا جارہا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور جون 2024 سے اب تک افغان صوبوں نورستان، کنڑ، ننگرہار، پکتیا، خوست اور پکتیکا سے 4000 سے زائد دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جبکہ بنوں، ڈی آئی خان اور بلوچستان میں حالیہ حملوں میں متعدد افغان شہری بھی ملوث پائے گئے۔
پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ ہم نے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک 50 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی، تجارت میں سہولت دی، تعلیمی مواقع فراہم کرتے ہوئے افغانستان کی تعمیرِ نو میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ افغان حکومت نے پاکستان کے احسن اقدامات کا جواب دہشت گردانہ کاروائیوں سے دیا۔
دستاویز میں یہ بھی گیا ہے کہ پاکستان سفارت کاری اور مذاکرات پر یقین رکھتا ہے مگر اپنی خودمختاری اور شہریوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
اگر افغانستان نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف عملی کارروائی نہ کی تو ریاستِ پاکستان مؤثر جواب دینے کا بھرپور حق رکھتی ہے۔
پاکستان نے افغان طالبان سے اس چیز کی اپیل بھی کی کہ وہ پڑوسی و اسلامی ہونے کی حیثیت سے ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں، دہشت گردوں کے خلاف عملی اور مؤثر اقدامات کریں، اور خطے کے امن و استحکام کے قیام کے لیے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعاون کریں۔
دیکھیں: اورکزئی میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، 30 دہشت گرد ہلاک