خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقے بیانکن گاؤں میں نامعلوم مسلح افراد نے پولیو ٹیم پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی پر مامور لیویز اہلکار عبدالکبیر موقع پر شہید ہو گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پولیو ویکسینیشن ٹیم میں خاتون ہیلتھ ورکرز شامل تھیں جو ایک مقامی گھر میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں۔ اسی دوران گھر کے باہر سیکیورٹی پر تعینات لیویز اہلکار پر حملہ کیا گیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں اہلکار عبدالکبیر موقع پر ہی جامِ شہادت نوش کر گئے، جبکہ حملہ آور فرار ہو گئے۔
واقعہ تحصیل مٹہ کے دور دراز علاقے انزر ٹنگے میں پیش آیا، جو ماضی میں بھی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہ چکا ہے۔ واقعے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہید اہلکار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیو ورکرز کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے، اور ذمہ داروں کو “قانون کے مطابق سخت انجام” تک پہنچایا جائے گا۔

پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب بھی جنگلی پولیو وائرس موجود ہے۔ انسدادِ پولیو مہمات کے دوران صحت عامہ کے کارکنوں اور ان کے محافظوں پر حملے اکثر پیش آتے رہتے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ماضی میں شدت پسندی یا ویکسین سے متعلق غلط فہمیاں رہی ہیں۔
ایسے حملے نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع ہیں بلکہ ملک کے پولیو فری ہدف کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں پاکستان میں پولیو کے 74 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں بلوچستان سے 27، سندھ سے 23 اور خیبرپختونخوا سے 22 کیسز سامنے آئے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔
جبکہ 2025 میں ستمبر تک 24 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 16 خیبرپختونخوا، 6 سندھ، اور ایک ایک کیس پنجاب اور گلگت بلتستان میں رپورٹ ہوا۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود انسدادِ پولیو مہمات جاری رہیں گی، اور ہائی رسک اضلاع میں ویکسینیشن مہمات مزید تیز کی جائیں گی۔ حکام نے یقین دلایا ہے کہ پولیو ٹیموں، محکمہ صحت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون مزید مضبوط بنایا جائے گا تاکہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مٹہ حملے نے صوبے میں دوبارہ عسکریت پسندی کے خطرات کو اجاگر کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے نئے فوجی آپریشنز کی مخالفت کی تھی، جسے مبصرین انتہاپسند گروہوں کے لیے “سیاسی گنجائش” قرار دیتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف “انتہاپسندوں کی سیاسی پشت پناہی” کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ریاست دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔”
دوسری جانب، سیکیورٹی ادارے شمالی وزیرستان اور قبائلی اضلاع میں آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ انسدادِ پولیو مہم سیکیورٹی سختی کے ساتھ جاری رہے گی۔
یہ حملہ ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کی انسدادِ پولیو جنگ صرف صحت کا نہیں بلکہ بقا کا مسئلہ بھی ہے۔
دیکھیں: اورکزئی میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، 30 دہشت گرد ہلاک